قصہ ایک دوپہر کا
دوپہر کا وقت تھا۔ تیز ہوا چل رہی تھی۔ گھر پر خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ عاشر میاں اپنی امی کے ساتھ خالہ کے یہاں گئے ہوئے تھے۔ گھر پر دادی جان اکیلی تھیں۔ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ تیز ہوا سے پام کے درخت کے پتے جھوم رہے تھے۔ درخت کے ساتھ ہی کھڑکی تھی۔ ہوا کے جھونکے کمرے میں چلے آ رہے تھے۔ میز پر بہت سے اخبار اور کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔ ہوا سے اخبار پھڑپھڑا رہے تھے۔
کتابوں کے اوپر عاشر کی نئی جیسی لغت بھی رکھی ہوئی تھی۔ جو کچھ دن پہلے ابو نے لاکر دی تھی۔ عاشر چوتھی جماعت میں پڑھتے تھے۔ ان دنوں ان کا یہی شغل تھاکہ لغت میں مشکل مشکل الفاظ تلاش کرتے اور دوسروں پر اپنی قابلیت کا رعب جماتے رہتے۔
کچھ دیر ہی گزری تھی کہ تیز ہوا کا جھونکا آیا۔ عاشر کی لغت میز سے نیچے گر کر کھل گئی۔ ہوا سے اس کے ورق خودبخود پلٹ رہے تھے۔ اچانک اس میں سے ’’الف‘‘ نے اپنا سر باہر نکالا۔ حیرت سے ادھر ادھر دیکھا پھر اچک کر کتاب سے باہر آ گیا۔ باہر آکر اس نےاکیلاپن محسوس کیا تو ’’ب‘‘ کو آواز دی۔ ب بھی اپنے نقطے کو سنبھالے باہر چلا آیا۔ اس کے پیچھے ’’پ‘‘ نے بھی باہر چھلانگ لگائی اور چکنے فرش پر پھسلتا چلا گیا۔ بس پھر تو تمام حروف ایک دوسرے کے پیچھے یکے بعد دیگرے باہر آتے چلے گئے، خوب شور مچا۔ ایسا لگا کسی اسکول کی چھٹی ہوئی ہے۔ اس افراتفری میں ’’ٹ‘‘ کی ط ادھر ادھر ہوگئی اور وہ بوکھلا کر اسے آوازیں دینے لگا۔ عین کی گردن مڑ گئی اور وہ تکلیف سے کراہنے لگا۔ چھوٹا ’’ہ‘‘ بیچارہ دوسرے طاقتور حرفوں کے پیروں تلے روندا گیا۔ جس سے اس کی شکل ہی بگڑ گئی۔ وہ بڑی مشکل سے روتےa ہوئے واپس اپنی پرانی حالت میں آیا۔
تمام حروف کمرے میں ادھر ادھر پھیل گئے تھے۔ کچھ فرش پر اپنے نقطے سنبھالے ٹہل رہے تھے تو کچھ صوفوں پر چڑھے اچھل کود کر رہے تھے۔ وہ زور زور سے باتیں کر رہے تھے اور ہنس رہے تھے۔ باتوں کے درمیان ان میں بحث چھڑ گئی کہ کس حروف سے سب سے زیادہ اہم لفظ شروع ہوتے ہیں۔ سب شیخیاں بگھار رہے تھے۔
’’ج‘‘ بولا: ’’جنگ اور جذبہ مجھ سے شروع ہوتے ہیں۔ میں سب سے زیادہ طاقتور ہوں‘‘۔
’’ز‘‘ بولا: ’’زندگی اور زلزلہ مجھ سے آتے ہیں‘‘۔
’’م‘‘ نے لن ترانی کی: ’’موت، مال اور مگرمچھ کا آغاز مجھ سے ہوتا ہے‘‘۔
غرض ہر کوئی خود کو سب سے برتر اور طاقتور ظاہر کر رہا تھا۔ ان کی بحث بڑھتی جارہی تھی۔ وہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان کے چہروں پر غصہ بھی نظر آ رہا تھا۔ کچھ نے تو اپنی آستینیں چڑھا لی تھیں۔ کمرے میں ایک طوفان بدتمیزی برپا تھا۔ اس شوروغل سے دادی جان کی آنکھ کھل گئی۔ وہ کان لگائے کمرے سے آتی آوازیں سن رہی تھیں لیکن ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ آخر وہ اٹھ بیٹھیں۔
حروف کی بحث اب لڑائی میں تبدیل ہونے لگی تھی۔ وہ سرخ چہروں کے ساتھ مٹھیاں بند کئے ایک دوسرے کی طرف بڑھنے لگے۔ اچانک ایک پروقار آواز کمرے میں گونجی۔ ’’ٹھہرو! یہ تم کیا کر رہے ہو؟‘‘
سب حروف چونک پڑے۔ انہوں نے دیکھا ’’آ‘‘ اپنی مد کو سنبھالے میز پر چڑھا ہے۔ اس کی آواز سن کر سب اپنی جگہ پر رک گئے اور خاموشی چھا گئی۔ ’’آ‘‘ لغت کا سب سے پہلا حروف تھا۔ سب اس کی بہت عزت کرتے تھے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.