Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

رنگ بھری کہانی

سلمیٰ جیلانی

رنگ بھری کہانی

سلمیٰ جیلانی

MORE BYسلمیٰ جیلانی

    پیارے بچو آج میں آپ کو ایک رنگ بھری کہانی سناتی ہوں۔

    کسی آرٹسٹ نے ایک مرغے کی تصویر بنائی۔ ابھی اس میں رنگ بھرنے باقی تھے کہ مصور کو نیند آ گئی۔ مرغے کو بھوک لگ رہی تھی۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا کہیں کوئی دانہ پڑا ہوا دکھائی نہ دیا۔ کھانے کی تلاش میں وہ ایک ایسے باغ میں جا نکلا جہاں تین رنگ رہتے تھے۔ نیلا، لال اور پیلا رنگ۔ انہوں نے جو ایک بے رنگ مرغے کو گھومتے دیکھا تو اپنے ڈول اور برش لے کر اس کے پاس پہنچ گئے۔

    نیلا رنگ بولا۔ ’’ارے میاں مرغے! یہ تمہارے رنگوں کو کیا ہوا؟ کہاں اڑ گئے تمہارے رنگ؟‘‘۔

    مرغا بولا۔۔۔ ’’ککڑوں کو ۔۔۔ یہ رنگ کیا ہوتے ہیں؟ میں نے تو کبھی دیکھے ہی نہیں‘‘۔

    رنگ اسے جھیل کے پاس لے گئے، جہاں شفاف پانی آئینے کی طرح نظر آ رہا تھا۔ مرغے نے اپنا عکس دیکھا تو اسے احساس ہوا واقعی اس میں کچھ کمی ہے۔ وہ اداس ہو گیا۔ لال رنگ نے اسے تسلی دیتے ہوئے اپنی بالٹی سے چمکتا ہوا لال رنگ نکالا اور مرغے کی کلغی اور سر کو لال رنگ دے دیا۔ مرغے نے آس پاس لال نیلے پیلے پھولوں کو دیکھ کر سمجھ لیا تھا کہ رنگ کیا ہوتے ہیں اور ان کی موجودگی سے فضا کتنی خوبصورت اور خوشگوار ہو جاتی ہے۔ اسے اپنا لال سر اور کلغی بہت پسند آئی۔ لیکن باقی پر ابھی بےرنگ ہی تھے۔ نیلے رنگ نے اس کی دم کے کچھ پروں کو رنگ دیا۔ اب مرغا لال اور نیلے رنگوں سے آراستہ ہو گیا تھا۔ پیلے رنگ نے یہ دیکھا تو جلدی سے اپنی خدمات پیش کردیں اور مرغے کے پیٹ اور پیٹھ پر پیلے رنگ کی گلکاریاں کر دیں۔

    مرغا سوچ رہا تھا باغ میں سارے پتے اور گھاس ہرے رنگ کی ہے۔ یہ ہرا رنگ کہاں سے آیا جبکہ یہاں تو صرف تین ہی رنگ رہتے ہیں۔ اسے ہرا رنگ بہت بھایا جیسے آنکھوں میں تراوٹ کا احساس جاگ گیا ہو۔

    نیلے رنگ نے مرغے کی پریشانی بھانپ لی۔ وہ ہنس کر بولا ’’تم فکر نہ کرو ابھی تمہیں ایک تماشا دکھاتے ہیں‘‘۔ اس نے جلدی سے پیلے رنگ کی طرف دوڑ لگائی اور دونوں نے ایک بڑی سی تھالی میں نیلا اور پیلا رنگ گھولا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ چمکتے ہوئے سبز یعنی ہرے رنگ کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا۔ اب دونوں رنگوں نے اسے مرغے کے باقی پروں کو ہرے رنگ سے رنگ دیا۔ مرغے کو اپنی ٹانگیں اچھی نہیں لگ رہی تھیں۔ اسے بھورے رنگ کی تلاش تھی۔ لال رنگ نے تھوڑے سے بچے ہوئے اور ہرے رنگ میں ٹپکا دیا ارے واہ یہ تو اس کی ٹانگوں اور پنجوں کےلئے بالکل مناسب رہےگا۔ اب تینوں رنگوں نے بڑی نفاست سے بھورے رنگ سے اس کی ٹانگیں اور پنجے رنگ دیئے۔ مرغے نے جھیل کے پانی میں اپنا عکس دیکھا تو خوشی سے جھوم اٹھا۔ اب وہ رنگ برنگے پروں والا خوبصورت مرغا بن چکا تھا۔ اس نے پر پھیلائے اور ہلکی سی اڑان بھری۔

    اب وہ باغ میں بنے ہوئے شیڈ کی چھت پر پہنچ گیا تھا۔ صبح کا سورج آہستہ آہستہ آسمان پر طلوع ہو رہا تھا۔ مرغے نے گردن اونچی کی اور تیز آواز میں بانگ دینے لگا۔ ’’ککڑوں۔۔۔ کوں‘‘۔ باقاعدہ صبح کا آغاز ہو چکا تھا۔ ایک نیا دن بستر میں سوئے لوگوں کا منتظر تھا۔ بچے انگڑائی لے کر بیدار ہوئے۔ امی نے انہیں اسکول کے لئے تیار کرنا شروع کر دیا۔ اب انتظار تھا تو دودھ کے گلاس کا۔ دودھ والے نے جلدی سے اپنی دودھ سے بھری ہوئی بالٹی کو موٹر سائیکل میں لٹکایا اور محلے کے بچوں والے گھروں کی طرف چل دیا۔ رنگ برنگا مرغا اپنے کام سے بہت خوش تھا اور نگ بھی۔ (مرکزی خیال ماخوز)

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے