Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

روشنی کی برسات

عشرت معین سیما

روشنی کی برسات

عشرت معین سیما

MORE BYعشرت معین سیما

    ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک چھوٹی سی لڑکی اپنے والدین کے ساتھ ایک چھوٹی سی جھونپڑی نما گھر میں رہتی تھی۔ اس لڑکی نام ستارہ تھا۔ اس لڑکی کے والدین بہت غریب تھے۔ ان کے پاس سوائے اس ٹوٹی پھوٹی جھونپڑی اور اس میں رکھے چند برتن اور دو رضائی و گدے کے کچھ بھی نہ تھا۔ جب بھی تیز ہوا چلتی یا بارش تیز برستی تو وہ جھونپڑی اور ٹوٹ پھوٹ جاتی اور اکثر اس جھونپڑی کی گھاس پھوس کی چھت اڑ جاتی یا ٹپکنے لگتی۔ جس کی وجہ سے ستارہ کے ماں باپ بہت پریشان رہتے اور ہر سال مون سون کے موسم سے آنے قبل وہ اپنی جھونپڑی کی چھت اور دیواریں مضبوط کرنے کے لیے مٹی اور گارے کی لیپ شروع کر دیتے۔ لیکن یہ طوفانی بارشیں ہر سال برس کر ان کے گھر کو درہم برہم کر دیتی۔

    ستارہ کے ماں باپ اپنے گھر کے قریب ہی ایک کھیت میں کام کرتے تھے۔ ان کی بڑی خواہش تھی کہ ان کی اکلوتی بیٹی اسکول جائے۔ لیکن وہ لوگ بہت غریب تھے۔ ان کے پاس اسکول کی فیس، یونیفارم اور کتابوں کے لیے پیسے بھی نہیں تھے اور اسکول بھی ان کے گاؤں سے کافی دور تھا۔ ستارہ کی ماں جب ستارہ کے باپ کو پریشان دیکھتی تو وہ بھی اپنے دل کو بھی مار کر کہتی کہ

    ’’میں ستارہ کو کھیت کھلیان میں کام کرنا اور مٹی گارے کا اچھا گھر بنانا سکھاؤں گی، جتنا لکھنا پڑھنا اور گننا زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے وہ تو ستارہ کبھی نہ کبھی خود ہی سیکھ لے گی۔ ہماری بیٹی بہت ہوشیار ہے، پہلے اس کو زندگی گزارنے کے یہ ڈھنگ سیکھنا ضروری ہیں جن سے بارش و تیز دھوپ سے بچ کر ایک اچھی و مضبوط چھت کے نیچے رہ سکے اور اپنے ہاتھ کی اُگائی تازہ سبزیاں اور اناج پیٹ بھر کر کھا سکے‘‘

    ستارہ کا باپ اپنی بیوی کی یہ دانشمندانہ باتیں سن کر مطمئن ہو جاتا اور سوچتا کہ ستارہ ذرا بڑی ہو جائے تو وہ اس کو اپنے ساتھ کھیت کھلیان میں فصل اگانا اور کاٹنا سکھائے۔

    اس روز فصل کی کٹائی تھی اور کھیت پر کام کرنے والے سارے کسانوں کو زمیندار اس دن چھ ماہ کا گندم تقسیم کر رہا تھا۔ ستارہ کے ماں باپ ایک گدھا گاڑی ادھار لے کر کھیت پر گئے ہوئے تھے۔ ستارہ گھر پر اکیلی تھی۔ اس روز اتنی بارش ہوئی کہ گاؤں کے تمام ہی کچے پکے گھر متاثر ہوئے اور ان کو نقصان پہنچا۔ ستارہ کے گھر کی چھت بھی بارش میں ٹوٹ کر ٹپکنے لگی اور پانی ساری جھونپڑی میں بھر آیا۔ بارش کے تیز ہوتے ہی ستارہ کے ماں باپ اپنے حصے کا گندم لیے گھر کی طرف دوڑے۔ لیکن تیز بارش میں گدھا گاڑی کا ایک پہیہ زمین پر ایک گڑھے میں پھنس گیا۔ وہ لوگ وہیں گندم کی بوری پہ پلاسٹک شیٹ ڈال کر بارش رکنے کا انتظار کرنے لگے۔

    ادھر ستارہ گھر میں اپنی چارپائی پر بیٹھی زمین پہ بہتے پانی میں سارے گھر کا سامان بھیگتا دیکھ رہی تھی۔ اچانک اُس کی نظر ایک چھوٹے سے چوہے پہ پڑی جو زمین کے ایک کونے میں اپنے بل سے باہر نکل کر پریشان تھا۔ ستارہ کو یاد آیا کہ ایک روز اس کی ماں نے بتایا تھا کہ اس جھونپڑی کے کسی کونے میں ایک چوہے نے بھی اپنا بل بنا لیا ہے اور اکثر وہ راتوں کو اپنے بل سے نکل کر باورچی خانے سےبچے کھچے کھانے تلاش کرتا ہے۔ ستارہ نے چوہے کو دیکھتے ہی چارپائی پہ بیٹھے بیٹھے جلدی سے کونے میں پڑی ایک لکڑی اٹھائی اور اس چوہے کی جانب بڑھائی۔ چوہا بھی ہوشیار تھا وہ فوراً ہی لکڑی کا سہارا لے کر ستارہ کی چارپائی کے قریب آ گیا۔ وہ بارش سے پورا بھیگ چکا تھا۔ جھونپڑی کے جس کونے میں اس نے اپنا گھر بنایا تھا وہاں ایک سوراخ سے کچھ سوکھی روٹی کے ٹکڑے بھی باہر نکلتے دکھائی دے رہے تھے۔ ستارہ نے چوہے سے کہا

    ’’پیارے چوہے! مجھے افسوس ہے کہ تمہارا کھانا اور مکان اس بارش کی نذر ہو گیا۔۔۔ بالکل ہماری طرح۔۔۔ دیکھو اس بارش نے ہماری چھت توڑ دی ہے اور ہمارا کتنا نقصان کر دیا۔ دیکھو ہمارے مٹی کے چولہے میں کتنا پانی بھر گیا ہے۔ آج تو اماں شاید ہی اس چولہے کو جلا پائے اور روٹی پکا سکے۔ ادھر کھیت میں بھی ساری فصل بارش سے خراب ہو رہی ہے۔۔۔اللہ میاں اتنی بارش کیوں برساتا ہے کہ ہم سب مشکل میں آ جائیں؟

    چوہے نے اپنی مونچھوں پر لگے پانی کے قطروں کو ایک جھٹکے سے زمین پہ گرایا اور لکڑی کے ڈنڈے کو مضبوطی سے تھام کر ذرا اوپر کی طرف بڑھا۔ ستارہ نے اس چوہے کو چارپائی کے کونے پہ بٹھا لیا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے چوہے کو سردی لگ رہی ہے اور وہ بری طرح کانپ رہا ہے۔ اس نے چوہے کو ہاتھ سے پکڑ کر چارپائی پہ بچھی چادر میں چھپانا چاہا تو چوہا ڈر کے مارے پیچھے پلٹا اور واپس زمین پہ گھر کر نہ جانے کہاں پلنگ کے نیچے چھپ گیا۔ کچھ دیر گزرنے کے بعد باہر بارش رک گئی۔ لیکن ستارہ کے گھر کی چھت پھر بھی وقفے وقفے سے ٹپک رہی تھی۔ زمین پہ بارش نے ایک کیچڑ سا بنا دیا تھا۔ بارش کے پانی کی وجہ سے ساری جھونپڑی کا سامان بکھر کر رہ گیا تھا۔ ستارہ نے چارپائی کے نیچے چاروں جانب دیکھا لیکن اسے چوہا نظر نہیں آیا۔

    کچھ ہی دیر میں ستارہ کے والدین جیسے تیسے گندم کی بوریاں اٹھائےگھر پہنچ گئے۔ گھر میں آتے ہی ستارہ کی ماں جھونپڑی کے اندر سے پانی نکالنے کی کوشش کرنے لگی اور ایک تنکے کی جھاڑو کی مدد سے گھر کے اندر بھر جانے والا پانی نکالنے کی کوشش کرنے لگی۔ ساتھ ہی اس کا باپ جلدی جلدی ساری گندم کی بوریاں ایک کونے میں رکھنے لگا اور جھونپڑی کی چھت کے ٹپکنے والی جگہ کے نیچے برتن رکھ کر گھاس پھوس چھت پر ڈال کر سوراخ بند کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ ساری جھونپڑی میں پانی بھر گیا تھا۔ مٹی کا بنا ہوا چولہا بھی گیلا ہو چکا تھا اور ساری لکڑیاں بھی بھیگ گئی تھیں۔ اسی وجہ سے اس روز ستارہ کے گھر میں چولہا بھی نہ جلا اور ستارہ اور اس کے والدین کو بھوکے پیٹ ہی گیلے بستر پہ رات گزارنی پڑی۔ اگلی صبح جب ستارہ کی آنکھ کھلی تو اس کے سارے بدن میں درد ہو رہا تھا اور اس کو بخار بھی تھا۔ ستارہ کے والدین پہلے ہی بارش اور طوفان کے نقصان سے تنگ تھے اور اب وہ اس نئی افتاد آجانے سے اور بھی پریشان ہوگئےتھے۔ گاؤں میں کوئی ڈاکٹر یا ہسپتال بھی نہیں تھا۔ لیکن جیسے تیسرے کر کے وہ ستارہ کو شہر لے گئے۔ وہاں ہسپتال میں ستارہ کا بہت اچھا اور بر وقت علاج ہوا۔ شہر کے ہسپتال میں ستارہ چند دن رہی اور رفتہ رفتہ بالکل ٹھیک ہوکر گھر واپس آ گئی۔ ہسپتال میں رہتے ہوئے ستارہ نے اس معصوم بھیگے چوہے کے بارے میں بھی سوچا اور اپنی حالت کے بارے میں بھی۔ بہت سوچ بچار کرنے کے بعد اس نے فیصلہ کیا کہ وہ ٹھیک ہونے کے بعد کھیت پر سبزیاں اگانے اور فصل کی کٹائی کا کام سیکھنے کے بجائے گاؤں سے باہر اسکول روزانہ جائےگی اور علم حاصل کرئے گی۔ گاؤں کے مولوی صاحب ہمیشہ بتایا تھا کہ انسان اشرف المخلوقات ہے۔ اللہ نے اس کو جانور سے زیادہ عقل دی ہے تو پھر وہ کیوں اس چوہے کی طرح صرف پناہ لینے کے لیے ایک کمزور چھت اور بھوک مٹانے کے لیے روٹی کے حصول تک سوچے اور عمل کرے۔ وہ بارش کے پانی کو کارآمد بنانے، گاؤں میں اسکول کھولنے اور ہسپتال قائم کرنے کے لیے علم کیوں نہ حاصل کرئے۔ روٹی ملنا اور سر چھپانا تو اس چوہے کو بھی میسر تھا۔ وہ ارادہ کر چکی تھی کہ اس بارش کے نقصانات دور کرنے اور بارش کا پانی کھیتوں کے لئے جمع کرنے کے لیے گاؤں کے لوگوں کو تعلیم حاصل کرنا ضروری ہے، ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ گاؤں میں ہسپتال بنانے اور ڈاکٹروں کو یہاں لانے کے لیے کچھ تدابیر کی جائے تاکہ گاؤں کے لوگوں کو بر وقت علاج کی سہولت ملے۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ بل میں چھپی ہوئی چوہیا نہیں ہے جو رات کو روٹی جمع کرئے اور دن بھر اپنے بل میں چھپی بیٹھی رہے۔

    ستارہ نے جب اپنے ارادے اور سوچ اپنے والدین کو بتائے تو وہ خوشی سے پھولے نہیں سمائے۔ وہ تصور میں اپنی بیٹی کو مستقبل کی ڈاکٹر، گاؤں کی مددگار اور اسکول کی استانی کے روپ میں دیکھ رہے تھے۔ جس رات ستارہ اپنے ارادوں کو مضبوط کر رہی تھی اس روز آسمان پر پھیلے سارے ستارے اس کے والدین کی دعا بن کر زمین پر روشنی بر سا رہے تھے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے