Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ریشم کا کیڑا

علیم اللہ حالی

ریشم کا کیڑا

علیم اللہ حالی

MORE BYعلیم اللہ حالی

    بچو! ہر ملک اور ہر قوم میں کچھ کہانیاں ایسی مشہور رہتی ہیں جو اس ملک کے باسیوں یا قوم کے افراد کے ذہنوں میں پشتہا پشت سے چلی آتی ہیں، سائنس کی بڑھتی ہوئی ترقی بھی عوام کے ذہن سے وہ حکایتیں نہیں نکال سکتیں۔

    ایسی حکایتوں کو ’’لوک کہانی‘‘ کہتے ہیں، آج میں تم کو ویت نام کی ایک لوک کہانی سناتا ہوں، اب یہ لوک کہانی ایک علامت کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔

    واقعہ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ بہت زمانہ پہلے ویت نام میں ایک جذباتی لڑکی تھی، بچپن ہی میں اس کی ماں مرچکی تھی، اس کی پرورش محلہ کی ایک بوڑھی عورت کر رہی تھی اس کا باپ تاجر تھا۔ اس لئے زیادہ تر گھر سے باہر ہی رہتا تھا ماں کے مرجانے اور باپ کے ساتھ نہ رہنے کی وجہ سے وہ کچھ بے پروا الھڑ اور شوخ ہو گئی تھی، اس کا باپ سال بھر میں صرف چند دنوں کے لیے موسم بہار میں گھر آتا تھا۔ اس کی لڑکی اب کچھ ہوش گوش کی ہو گئی تھی اور دن بھر کپڑے بنتی رہتی تھی، شام کو وہ دریا کی لہروں پر خالی الذہن ہوکر نگاہ ڈالا کرتی تھی۔

    ایک روز جب وہ مکان کے دروازے پر کھڑی ہوئی تھی تو اسے باغ میں پتے کھڑکنے کی آواز آئی، اس نے دیکھا کہ اس کے باپ کا سفید گھوڑا اصطبل سے نکل آیا ہے، گھوڑے کو دیکھ کر لڑکی کو باپ کی یاد آ گئی، گھوڑے کے پاس پہنچ کر یونہی بےپروائی سے بولی کہ ’’اگر تم میرے والد کو ڈھونڈ کر انہیں میرے پاس لے آؤگے تو میں تم سے شادی کر لوں گی۔‘‘

    اس کے بعد ہی گھوڑا ایک طرف روانہ ہو گیا اور وہ مسلسل تین دن اور تین رات جنگلوں اور پہاڑوں میں چلتا رہا پھر وہ ایک پہاڑی کے قریب سرائے کے پاس جاکر رکا اور زور سے ہنہنایا، ایک تاجر (جو حقیقتاً) لڑکی کا باپ تھا) اور سرائے میں بیٹھا شراب پی رہا تھا گھوڑے کی آواز سنتے ہی پیالہ پھیک کر باہر آیا، گھوڑے کو دیکھ کر اسے یہ اندیشہ ہوا کہ گھر میں کچھ نہ کچھ حادثہ ہوا ہے اپنے مالک کو دیکھ کر گھوڑا حوشی سے دم ہلانے اور ہنہنانی لگا۔ اس کے بعد مالک کے ساتھ ہی وہ گھر کی طرف چل پڑا۔

    گھوڑے کے ساتھ باپ کو دیکھ کر لڑکی کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی مگر وہ اس عرصہ میں یہ بھول گئی کہ اس نے گھوڑے سے کیا وعدہ کیا تھا۔

    گھوڑا اسی روز سے بیمار پڑ گیا اور اصطبل میں پڑا رہا۔ وہ نہ تو کھاتا تھا اور نہ ہی اسے نیند آتی تھی، وہ اپنی غمگین اور اداس آنکھوں سے اصطبل میں بیٹھا بیٹھا لڑکی کے تمام حرکات و سکنات کو دیکھتا رہتا تھا۔

    جب کبھی لڑکی پاس سے گزرتی تو گھوڑا خاص انداز سے آہ بھرتا۔ لیکن لڑکی کے دل میں اس کا کوئی اثر نہ ہوتا تھا۔

    جب گھوڑے کی حالت دن بہ دن خراب ہونے لگی تو لڑکی کے باپ نے اپنی بیٹی سے اس کے بارےمیں پوچھ گچھ کی، لڑکی نے پورا واقعہ اسے بتا دیا۔ واقعہ سن کر باپ سخت حیرت زدہ اور پریشان ہوا، اس غریب جانور کا کچھ خیال کئے بغیر اس نے اپنا تیر کمان سنبھالا اور گھوڑے کو مار دیا۔ اس نے گھوڑے کا چمڑا نکلواکر پاس کی جھاڑی پر رکھ دیا۔ اس کے بعد تاجر اپنے سفر پر یہ کہہ کر روانہ ہو گیا کہ وہ گھوڑے کے چمڑے کو روز دھوپ میں سکھایا کرے تاکہ کچھ دنوں کے بعد وہ کام کا ہو جائے۔

    ایک دوپہر جب کہ لڑکی گھر میں کپڑے بن رہی تھی ایک طوفان آیا، وہ چمڑا اٹھانے کے لئے جھاڑی کی طرف بیزاری سے یہ کہتی ہوئی دوڑی کہ ’’ناپاک چیز! تمہاری وجہ سے مجھے پریشانی ہوتی ہے میرا تو جی چاہتا کہ تجھ کو تالاب میں پھینک دوں۔‘‘

    جیسے ہی اس نے آخری الفاظ ادا کئے چمڑا خود بخود اٹھ کر اور اس لڑکی کو لپیٹ کر آسمان کی طرف اڑ گیا۔۔۔ کچھ وقفے کے بعد وہ بیر کے درختوں کے پاس ریشم کے ایک کویے کی شکل میں اترا جس کے اندرریشم کا کیڑا موجود تھا۔

    یہ کہانی ویت نام میں اب بھی یاد کی جاتی ہے۔ دیہاتوں میں جب ریشم کا کویا نظر آتا ہے تو لوگ اپنے بچوں کو بتاتے ہیں کہ اول اول یہ گھوڑے کا چمڑا تھا اور اس کے بیچ میں ریشم کا کیڑا وہی شوخ الھڑا اور بےپردا لڑکی تھی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے