آج مدرسے کی چھٹی تھی۔ اتوار کا دن تھا۔ میں اپنی سہیلی انوپما کے ساتھ بیٹھی ہوم ورک کے بہانے گپ شپ کر رہی تھی۔ اچانک باہر سے کچھ بچوں ے شور و غل کے ساتھ سپیرے کے بین کی آواز آئی۔ ہم دونوں دوڑ کر کھڑکی پر پہنچے اور کھڑکی کھول کر باہر جھانکا۔ گلی میں محلے کے بچے جمع تھے اور سانپ کا تماشا دکھایا جا رہا تھا۔
سپیرا جھوم جھوم کر بین بجا رہا تھا۔ سانپ کا پٹارا کھلا تھا اور کالا ناگ اپنا چوڑا سا پھن اٹھائے ادھر ادھر گھما رہا تھا۔ پھ سپیرے نے اس کو باہر نکالا اور زمین پر چھوڑ دیا۔ وہ لہرا لہرا کر اپنا ناچ دکھانے لگا۔ کچھ نڈر بچے اسے دیکھ کر تالیاں بجا رہے تھے اور کچھ ننھے ننھے منے بچے ڈر کر ماؤں کے آنچل میں منہ چھپائے کھڑے تھے۔
’’کیوں انو اسی طرح ہم بھی اس کو پال لیں اور پھر اس کو سدھار کر روز تماشا دکھایا کریں؟‘‘ میں نے اوپما سے پوچھا۔
’’مگر ہم پکڑیں گے کیسے؟ کبھی کبھی ہمارے یہاں برسات کے زمانے میں چمیلی کی جھاڑی میں سانپ تو دکھائی دیتا ہے مگر مالی بالی یا دادا جی موٹا سا ڈنڈا لے کر اسے مار پھینک دیتے ہیں‘‘۔ انوپما نے جواب دیا۔
’’بھئی ہمارے یہاں تو کبھی سانپ دکھائی نہیں دیا‘‘۔ میں کچھ سوچ کر بولی ’’اچھا! ہمارے باورچی خانے کے پیچھے ترکاری کی کیاری میں جہاں اماں نے ترئی اور سیم کی بیلیں لگا رکھیں ہیں، برسات آنے پر وہاں سانپ ڈھونڈیں گے‘‘۔
’’ہاں ہاں ضرور! مگر شور مچاکر سب کو بتانا نہیں‘‘۔ انوپما بولی۔
’’مگر اسے پکڑیں گے کیسے؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’ارے ایک موٹی سی رسی ڈھونڈکر اس کا پھندا بنا لینا‘‘۔ انوپما نے ترکیب سمجھائی۔
’’اہا! یہ تو اچھی ترکیب ہے، مگر پھر ہم کو ایک بین بھی خریدنا چاہئے۔‘‘
’’ارے بین تو بعد میں بجانا، پہلے اسے دودھ پلا کر پالنا ہوگا۔ مگر سب سے چھپا کر‘‘۔ انوپما نے سمجھایا۔
’’ٹھیک ہے میں ایندھن والی کوٹھری میں ایک ٹوکری میں اسے چھپادوں گی اوربھوری بلی کی طرح چھپاکر اسے دودھ پلایا کروں گی‘‘۔
’’اچھا چلو! برسات آنے دو۔ سانپ تو جب پکڑیں گے۔ آؤ اب تو پہاڑے یاد کر لیں اور انگریزی، اردو کا کام پورا کر لیں، نہیں تو کل اسکول میں نیا تماشا ہوگا!‘‘ انوپما نے ہنستے ہوئے کتاب کھولی۔
گرمی کی چھٹیاں اب ختم ہونے والی تھیں۔ برسات کا موسم کالی گھٹاؤں، بادلوں کی گرج اور بجلی کی چمک کے ساتھ شروع ہو چکا تھا۔ پھر چھما چھم بارشیں شروع ہو گئیں۔ ہر طرف ہریالی چھا گئی، مرجھائے پیڑ پودے ہرے بھرے ہو گئے اور اس کے ساتھ ہی میرے دماغ میں سانپ پکڑنے کا کیڑا کلبلانے لگا۔ میں کسی سانپ کی تلاش میں پھولوں کی کیاریوں اور ترکاریوں کی بیلوں میں گھومنے لگی۔ پھر جب ایک دن شام کو ترئی کی بیل میں ستارہ جیسی ننھی ننھی دو آنکھیں چمکتی نظر آئیں تو میں خوشی سے اچھل پڑی۔ سانپ بیل میں الجھا ہوا بیٹھا تھا۔ میں خوشی اور جوش میں قلانچیں بھرتی پیچھے کا دروازہ کھول، انوپما کے لان کی دیوار کود کر انوپما کو گھسیٹ لائی۔ رسی کا پھندا جو ایندھن کی کوٹھری میں پہلے ہی سے چھپا دیا گیا تھا، فوراً نکالا گیا۔ اب اندھیرا بڑھ رہا تھا۔ ہم جلدی جلدی رسی پکڑے بیل کے پاس پہنچے۔ مگر سانپ وہاں سے اتر کر نالی میں سر سرا رہا تھا۔ ہم دونوں اس کا پیچھا کرتے اس کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ بار بار رسی کا پھندا پھینکتے مگر وہ اس سے نکل کر جھٹ سے آگے بڑھ جاتا۔
اچانک وہ مڑکر باورچی خانے کے نیچے والی نالی میں ہو لیا۔ ہم دونوں کیڑے بنے ہوئے نالی کے کنارے کنارے دبے پاؤں بڑھتے رہے۔ اب وہ باورچی خانے کے بالکل نیچے پہنچ چکا تھا۔ باورچی خانے میں وزیرن بوا چولھے پر بڑا سا توا چڑھائے چھپا چھپ چپاتیاں پکار رہی تھیں۔ ہم دونوں کے جوتوں کی گھس پھس سن کر انہوں نے ادھر گھوم کر دیکھا۔
’’ارے لڑکیو! شام کے وقت موری میں کیا ڈھونڈ رہی ہو!‘‘ ’’شش ش!‘‘ میں نے سر اٹھا کر ان سے بالکل خاموش رہنے کا اشارہ کرتے ہوئے باورچی خانے کی دوسیڑھیاں چڑھ کر ان کے کان میں کہا’’بوا تمہیں قسم ہے، شور نہ مچانا۔ ہم سانپ پکڑ رہے ہیں۔ ہم اسے پالیں گے اور پھر تم بھی تماشا دیکھنا‘‘۔
’’اوئی میرے اللہ!‘‘ وزیرن بوا بوکھلا کر زور سے چیخیں’’الہٰی خیر۔ شکرن میاں! ائے بھیا! دوڑیو!! سانپ ہے سانپ‘‘ بوا گلا پھاڑ کر اس وقت تک چیختی ہی رہیں جب تک چچا میاں، جو نماز کے بعد جانماز پر ہی لیٹ گئے تھے، تیزی سے ٹارچ اور ڈنڈا لے کر نہ آ گئے۔۔۔ سانپ اب دالان کی نالی میں تھا۔ ہم دونوں ان سے لپٹ گئے۔
’’اچھے چچا میاں، اسے ہم پالیں گے۔ اسے نہ ماریئے‘‘۔ ’’لاحول ولا قوۃ‘‘ انہوں نے جنجھلا کر ہمیں جھٹکا دے کر اپنی ٹانگوں سے الگ کیا اور ٹارچ ڈال کر سانپ کو دیکھا اور بڑی پھرتی کے ساتھ چھڑی سے اسے باہر نکال کر کھلے حصے میں ڈالا اور فوراً اس کا سر کچل دیا۔ ہمیں اپنے اس اتنے اچھے منصوبے کے ٹوٹنے کا اتنا غم ہوا کہ ہماری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
’’ارے تم دونوں کو کیا ہوا؟ روکیوں رہی ہو!!‘‘ چچا میاں نے حیرت سے پوچھا۔
’’جائیے ہم نہیں بولتے آپ سے!‘‘ میں نے ان سے روٹھنے کے انداز میں کہا ’’آپ نے ہمارا سارا کھیل بگاڑ دیا۔ اس سانپ کو مار دیا۔ اسے تو ہم پکڑ کر پالنے والے تھے‘‘۔ میں نے رک رک کر کہا۔۔۔’’اور ہم پھر اس کو سدھار کر ایسا تماشا دکھاتے جیسا اس دن سپیرا دکھا رہا تھا‘‘۔
’’ہا ہا ہا‘‘ چچا میاں نے زوردار قہقہہ لگایا۔ ’’کیا پاگل پن سما گیا ہے تمہاری ننھی سی کھوپڑی میں!‘‘ چچا میاں کہہ رہے تھے۔ ’’جانتی ہو کچھ سانپ زہریلے بھی ہوتے ہیں۔۔۔ یہ پالتو جانور نہیں ہوتے۔‘‘
’’پھر وہ سپیرا!‘‘ میں نے بات کاٹی۔
’’ارے بھائی وہ سانپ پکڑنے کا کام سیکھتے ہیں۔ اپنی روٹی روزی کمانے کے لئے۔ پھر وہ سانپ کے دانتوں کے نیچے جو زہر بھری تھیلی ہوتی ہےنکالنا بھی جانتے ہیں۔‘‘ چچا میاں نے سمجھایا، پھر میرا اور انوپما کا کھسیانہ چہرہ دیکھ کر چچا میاں نے چمکار کر کہا’’اچھا کل ہم تمہیں ایک کھلونے والا کلدار سانپ دلادیں گے۔ پھر تم سب کو تماشا دکھاتی پھرنا‘‘۔
’’کوئی ہم ننھے بچے ہیں جناب! تیسری جماعت میں پڑھتے ہیں‘‘۔ میں نے ہیکڑی جتائی۔
چچا میاں مسکرائے۔ ’’اوہو! بڑی بی تم تو بڑی قابل ہو گئی ہو۔ تبھی تو بغیر سمجھے بوجھے زندہ سانپ پکڑنے چلیں تھیں۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.