سب سے بڑا کون۔۔۔؟
مئی کا مہینہ تھا۔ گرمی شباب پر تھی۔ گھرکے تمام لوگ دوپہر میں نیند کا مزہ لے رہے تھے،مگر مصباح کو نیند نہیں آ رہی تھی۔ بار بار وہ کمرے سے باہر نکلنا چاہتا تھا لیکن اسے موقع نہیں مل رہا تھا۔ اتنے میں امی کے خراٹے کی آواز سنائی دی تو اسے چین آیا۔ اپنی کتاب لے کر چپکے سے وہ باہر نکلا تاکہ گھرکے سامنے نیم کے سایہ دار درخت کے نیچے مطالعہ کر سکے۔ وہ پنجوں کے بل دھیرے دھیرے قدم بڑھا رہا تھا۔ کمرے سے نکل کر آنگن میں آیا اور باورچی خانہ کے پاس سے گزر رہا تھا کہ کچن میں کچھ کھڑکھڑاہٹ سی ہوئی۔ عجیب آوازیں آنے لگیں۔ وہ ٹھٹھک گیا۔ اس نے ڈرتے ہوئے باورچی خانے کی کھڑکی سے اندر جھانکا۔ چوتو نہیں داخل ہو گیا۔ وہ سوچ رہا تھا لیکن کوئی نہیں تھا۔ اتنے میں سامنے رکھے ہوئے مسالہ دان کا ڈھکن اچھلا اور یہ دیکھ کر مصباح کی حیرت کی انتہانہ رہی کہ سبھی مسالے آپس میں جھگڑ رہے ہیں کہہ رہے ہیں کہ میں بڑا ہوں، میں بڑا ہوں۔ مسالوں کو جھگڑتے ہوئے پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ مگر وہ فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ ان میں کون کس سے اہم ہے۔ کون چھوٹا ہے اور کون بڑا ہے۔
اتنے میں ہلدی زور سے چلائی۔ میں پیلی پیلی ہلدی ہوں۔ تمہیں پتہ نہیں کہ جب کسی انسان کو چوٹ لگتی ہے تووہ مجھے جسم پر لگاتے ہیں۔ دودھ میں ملاکر پیتے ہیں تو درد دور کر دیتی ہوں۔ لڑکیوں کی شادی میں دلہن کا ابٹن کرتی ہوں۔ دال ہو یا ساگ سبزی سبھی کا رنگ بدلتی ہوں۔ میں سب سے زیادہ مفید ہوں۔ ابھی ہلدی بی کیوں باتیں بنا رہی ہو میرے بغیر تو چھونک بھی نہیں لگ سکتی کوئی سبزی ہو یا سالن بغیر میرے کام نہیں چلتا سمجھیں۔ تم سے میں کوئی کم نہیں ہوں۔ ہلدی اور لال مرچ بحث کر رہے تھے کہ ایک کنارے سے دھنیا لڑھکتا ہوا آ گیا اور بولا:’’زیادہ تمتماؤ نہیں، مرچی تم سے تو لوگ پناہ مانگتے ہیں۔ اگر کسی نے مزے کے لئے زبان پر ذرا سی رکھ لی تو بیچارہ آنکھوں میں آنسو بھر کر رہ جاتا ہے۔ چھونک لگانے کی بات کرتی ہو۔ تم نے دیکھا نہیں کہ چھونک لگتے سبھی موجود لوگوں کو چھینک آ جاتی ہے۔ اپنی اس فطرت پر شرمندہ ہونے کے بجائے اترا رہی ہو؟ مجھے دیکھو مجھ سے سبھی خوش ہوتے ہیں۔ ہر موسم میں لوگ مجھے تلاش کرتےہیں، جانتی ہو کیوں؟ ’’وہ اس لئے کہ میں سب کے کام بنا دیتا ہوں، ذائقہ بڑھا دیتا ہوں، سبزی اور سالن میں میرے استعمال سے خوشبو پیدا ہو جاتی ہے۔ خوشبو کی بات سن کر اچانک سبھی گرم مسالے اچھل پڑے۔ تیزپان، کالی مرچ، لونگ اور الائچی سبھی متحد ہو گئے۔ لگے شور مچانے ہم سب تو خوشبو والے ہیں۔ ہم سے زیادہ دھنیے تم میں خوشبو کہاں؟ بیچارہ اکیلا دھنیا گرم مسالوں کے آگے خاموش ہو گیا۔ مسالے نے سمجھا کہ گرم مسالہ ہی سب سے بڑا ہے۔ وہ اب آگے بڑھنے والا تھا کہ مسالہ دان کے ایک کونے سے رائی نے چھلانگ لگائی اور میدان میں آ گئی اورگرم مسالوں سے الجھ گئی۔بس۔۔۔! صرف اپنی خوشبو پرناز ہے۔ مجھے دیکھو میں ساگ بھائی اور دال بہن کے ساتھ چھونک لگاتی ہوں۔ اچار ماما کی کئی سال تک حفاظت کرتی ہوں۔ بہت دیر سے ایک جانب زیرہ سبھی کی باتیں سن رہا تھا۔ اس سے نہ رہا گیا۔ اس نے بھی زبان کھولی۔ مجھے ہر کھانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ کھانے کومزے دار میں بناتا ہوں، ٹھنڈک میں دیتا ہوں۔ دہی بڑے کی تومیں شان ہوں۔ دہی کے مٹھے میرے بغیرب یکار ہیں، اس لئے تم سب سے بڑا میں ہوں۔ یہ جھگڑا بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ مصباح کو بھی مسالوں کی لڑائی دیکھ کر مزہ آ رہا تھا۔ بغیر آہٹ کے وہ چپ چاپ کھڑکی سے یہ سارا تماشہ دیکھ رہا تھا۔ زیرہ کے بڑبولے پن کو کھٹائی نے برداشت نہیں کیا وہ اپنی بڑائی کرتی اٹھی اور بولنے لگی ارے جاؤ۔۔۔ ترکاری دال یا ساگ کا مزہ تومیں میں بناتی ہوں۔ بڑے توبڑے بچے بھی مجھ کھٹائی کو خوب پسند کرتے ہیں۔
سبھی اپنی بڑائی ہانک رہے تھے اور ہینگ چچا کا پیٹ پھول رہا تھا۔ ان سے برداشت نہ ہوا۔ اچانک وہ ڈبے میں سے اچھل کود کر باہر آ دھمکے اور لگے اپنی تعریف آپ کرنے کہ میں لوگوں کے پیٹ کے درد کو دور کرتا ہوں۔ دال میں ذائقہ اور خوشبو بھرتا ہوں۔ یہ بحث چل رہی تھی کہ ایک گرجدار آواز نے سبھی کو چونکا دیا۔ بہت دیر سے تم لوگوں کی فضول باتیں سن رہا ہوں۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ تم سب کے سب چھوٹے ہو۔ بڑا تو وہ رب ہے جس نے تم سب کو اور مجھے بنایا ہے۔ حالانکہ میں سب سے زیادہ اہم ہوں میرے بغیر ذائقہ پھیکا ہے بس تھوڑا سا استعمال ہوتا ہوں اور کھانے میں استعمال ہونے والے سالن، دال اور سبزی کو ذائقہ دار بنا دیتا ہوں۔ نہیں جانتے مجھے میں خدا کی نعمت کا ایک نمونہ ’’نمک‘‘ ہوں۔ تم میں سے کوئی چھوٹا یا بڑا نہیں، رب نے سب کو اس کی خوبیوں سے نوازا ہے۔ اس لئے جھگڑا بند کرو۔ تمہاری آپس کی لڑائی کو دیکھ کر انسان کا ایک بچہ تمہارا مذاق اڑا رہا ہے۔ نمک کی گرجدار آواز سے مصباح کی ممی کی آنکھ کھل گئی۔ وہ مصباح کوآواز دینے لگیں۔ ان کی آواز سن کرسبھی مسالے لڑائی چھوڑکر آپس سمجھوتہ کرکے دوبارہ اپنے ڈبوں میں جاکر دبک گئے اور مسالہ دان کا ڈھکن اپنے آپ بند ہو گیا۔
مصباح کی ممی باہر آ چکی تھیں۔ کیا کر رہے ہو باورچی خانے کے پاس؟ ممی نے پوچھا: ’’کچھ نہیں میں تونیم کے سایہ میں اپنا ہوم ورک کرنے جا رہا ہوں اور وہ تیزی سے اپنی کاپی کتاب لے کر نیم کے سایہ دار درخت کی طرف ہوم ورک مکمل کرنے چلا گیا۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.