Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سچ کا نام بڑا

احمد ابراہیم علوی

سچ کا نام بڑا

احمد ابراہیم علوی

MORE BYاحمد ابراہیم علوی

    کلاس میں بالکل خاموشی تھی۔ سبھی بچے چپ چاپ قلم کاپی سنبھالے ہوئے تیار بیٹھے تھے کہ انگریزی کے استاد آئیں اور املا بولنا شروع کریں۔ آج انگریزی املا کا دن تھا۔ سبھی بچے گھر سے خوب خوب یاد کر کے آتے تھے۔ روزمرہ کی طرح اس دن بھی بچوں کے انگریزی کے استاد کا انتظار زیادہ دیر نہ کرنا پڑا۔ گھنٹہ بجنے کے تھوڑی دیر بعد انگریزی کے استاد کلاس میں آ گئے۔

    استاد کے کلاس میں آتے ہی سبھی بچے ان کی تعظیم کے لئے بڑے ادب سے کھڑے ہو گئے۔ استاد نے ان کو بیٹھ جانے کا اشارہ کیا اور وہ سب بیٹھ گئے اور ان کی طرف متوجہ ہو گئے۔

    انگریزی کے استاد نے بہت شفقت اور نرمی سے کہا ’’بچوں آج ہمارے اسکول میں انسپکٹر صاحب آئے ہیں اور وہ معائنہ کریں گے۔ اس لئے میں تم لوگوں کو املا نہیں بولوں گا ابھی انسپکٹر صاحب آتے ہوں گے وہی تم لوگوں کو املا بولیں گے‘‘

    ’’جی جی اچھا ماسٹر صاحب’’ اگلی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے بچوں نے استاد کی بات ختم ہوتے ہی ایک ساتھ دھیمی آواز میں کہا یہ سن کراستاد نے پھر ان کو مخاطب کیا۔

    ’’دیکھو بچوں گھبرانا بالکل نہیں جیسے ہی انسپکٹر صاحب کلاس میں داخل ہوں تم سب بہت خاموشی اور بہت ادب سے کھڑے ہو جانا پھر جب وہ کہیں (Please Sit down) پلیز سٹ ڈاؤن تو تم سب بیٹھ جانا پھر جب وہ پوچھیں کہ آج کیا ہے تو صرف مانٹیر جواب دے کہ سر آج (Dictation) ڈکٹیشن کا دن ہے۔‘‘

    انگریزی کے استاد بچوں کو یہ سمجھا ہی رہے تھے کہ انسپکٹر صاحب کلاس میں داخل ہوئے۔ ان کو دیکھتے ہی سب بچے ادب سے کھڑے ہو گئے۔ انہوں نے پورے کلاس پر بھرپور نظر دوڑاتے ہوئے ان سب سے بیٹھ جانے کو کہا پھر انگریزی کے استاد سے مخاطب ہوئے۔

    ’’ماسٹر صاحب کیا پڑھا رہے ہیں؟‘‘

    ’’سر آج ڈکٹیشن کا دن ہے’’ انگریزی کے استاد نے جواب دیا ’’اچھا اچھا تو آج ڈکٹیشن کا دن ہے تو لائیے آج میں ہی بول دوں دیکھوں آپ کے بچے کیا پڑھتے ہیں‘’ انسپکٹر صاحب نے مسکراتے ہوئے انگریزی کے استاد سے کہا انگریزی کے استاد یہ سن کر انسپکٹر صاحب سے ذرا سا ہٹ کر اور ایک کونے میں کھڑے ہوگئے تاکہ انسپکٹر صاحب سب لڑکوں کو اچھی طرح دیکھ سکیں۔ سبھی بچے املا لکھنے کے لئے تیار ہو گئے۔ انسپکٹر صاحب نے کہا۔

    ’’بچوں تمہارا قلم کاپی تیار ہے نا؟‘‘

    ’’جی ہاں سر‘‘ سبھی بچوں نے ایک ساتھ جواب دیا۔

    ’’تو لکھو میں بولتا ہوں‘‘ انسپکٹر صاحب نے کہا اور پھر رک رک کر املا بولنا شروع کر دیا۔ Forest فاریسٹ، Manمین، Cup کپ، Teacher ٹیچر، Kettle کیٹل۔

    سبھی بچے گھر سے خوب پڑھ کر اور یاد کر کے آئے تھے اس لئے ان سبھی نے جلدی جلدی انسپکٹر صاحب کے بولے ہوئے پانچوں لفظ بالکل ٹھیک ٹھیک لکھ دیئے۔ انگریزی کے استاد نے خوش ہوکر بچوں کے پاس جا جاکر دیکھا تو صرف ایک بچہ ایسا نکلا جو ’’کیٹل‘‘ نہیں لکھ پاتا تھا اور باقی چاروں لفظ اس نے بالکل ٹھیک لکھے تھے۔ وہ بچہ چاہتا تو بغل میں بیٹھے کسی بھی بچے کی نقل کر سکتا تھا مگر اس نے ایسا نہیں کیا وہ اپنی جگہ پر بیٹھا رہا اور اس نے اپنی نظر اپنی کاپی سے ذرا بھی نہ ہٹائی۔

    انسپکٹر صاحب نے دھیرے دھیرے سبھی بچوں کے پاس گئے اور انہوں نے سب کی کاپیاں دیکھیں ۔وہ جب اس کے پاس گئے تو وہ بچہ سب بچوں کی طرح ادب سے کھڑا ہو گیا اور اس نے اپنی کاپی انسپکٹر صاحب کو پیش کر دی۔ انسپکٹر صاحب نے اس کی کاپی دیکھی اور پھر مسکراتے ہوئے اس سے بولے۔

    ’’تم کو‘’ کیٹل ‘‘کی اسپیلنگ نہیں معلوم؟‘‘

    ’’نوسر‘‘ اس بچے نے بہت ایمانداری اور شرمساری سے کہا

    انسپکٹر صاحب اس بچے کا جواب سن کر اس پر غصہ نہیں ہوئے بلکہ وہ بہت خوش ہوئے اور انگریزی کے استاد سے مخاطب ہوئے۔

    ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ ماسٹر صاحب! آپ کے کلاس کے بچے نہ صرف پڑھنے میں تیز ہیں بلکہ ایماندار بھی ہیں۔ اس بچے کے دائیں بائیں دونوں طرف بیٹھے ہوئے بچوں نے سبھی لفظ صحیح لکھے ہیں اگر یہ بچہ چاہتا تو نقل کر سکتا تھا یا پوچھ سکتا تھا مگر یہ نقل کرنا یا پوچھنا بھی بےایمانی سمجھتا ہے اس لئے اس نے ایسا نہیں کیا میں آپ کے سبھی بچوں سے اور اس بچے سے بہت خوش ہوں۔‘‘

    انسپکٹر صاحب انگریزی کے استاد سے اتنا کہہ کر اس بچہ سے مخاطب ہوئے۔

    ’’کیوں بچے تمہارا نام کیا ہے؟‘‘

    ’’جناب میرا نام موہن داس ہے‘‘ اس بچے نے بہت شائستگی سے جواب دیا جس کو سن کر انسپکٹر صاحب نے کہا۔

    ’’تم ضرور ایک دن نام پیدا کروگے۔‘‘

    انسپکٹر صاحب کا کہنا سچ ثابت ہوا۔ اس بچے نے آگے چل کر بڑا نام پیدا کیا۔ بڑا ہو کر اس نے ہمارے ملک ہندوستان کو غلامی سے نجات دلانے کا راستہ دکھایا خود بڑی بڑی مصیبتیں جھیل کر ملک کو آزاد کرایا۔ اس نے ساری زندگی اپنے وطن اور عوام کی خدمت کرتے ہوئے اپنی جان دے دی۔ وہ مر گیا مگر اس کا نام اور کام امر ہو گیا۔ ساری دنیا اس کی عزت کرتی ہے۔ اس کا نام بڑے ادب اور احترام سے لیا جاتا ہے۔ اس کا پورا نام تو موہن داس کرم چند گاندھی تھا مگر ہم ہندوستانی محبت سے اس کو باپو کہتے ہیں۔ وہ قوم کا باپ بھی کہلاتا ہے۔ سچا، ایماندار اور نیک ہونے کے سبب وہ ’’مہاتما‘‘ بھی کہلاتا ہے۔ ہندوستان میں جتنے بھی بڑے آدمی پیدا ہوئے ہیں ان سب میں وہ شامل ہیں اور یہ صرف اس لئے کہ اس نے شروع ہی سے جھوٹ سے نفرت کی اور سچ بولنے کی عادت ڈالی۔ سچ ہے۔

    ’’سچ کا نام بڑا‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے