غدر سے پہلے کی بات ہے۔ تم کو معلوم ہے بچو! غدر کب ہوا تھا اور یہ کیا چیز تھی؟ غدر 1857 میں ہوا تھا۔ اس کو غدر اس لئے کہتے ہیں کہ انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کر لیا تھا وہ ہندوستانیوں پر ظلم و ستم کرنے لگے تھے۔ ان کے خلاف ہندوستانیوں نے بغاوت کر دی تھی مگر ہندوستانی ہار گئے اور پھر پورے نوے (90) سال بعد ہم سب نے ایک ہوکر ان کو مار بھگایا۔ اس طرح ہم 1947 میں پورے طور سے آزاد ہو گئے۔
بات تھی غدر سے بھی پہلے کی یعنی تقریباً دو ڈھائی سو برس پہلے کی۔ دہلی کے قریب ایک دیہات کی مسجد میں ایک ملا جی نماز پڑھایا کرتے تھے۔ یہ اندھوں میں کانا راجہ تھے۔ دیہات میں کوئی بھی نیا آدمی آتا تھا تو کچھ لوگ اس سے کہتے کہ پہلے ہمارے ملا جی کے پاس چل کر ان کی بات کا جواب دو تو ہم تمہیں گاؤں میں ٹھہرنے دیں گے۔
جو بھی مسافر آتا اس سے ملا جی پوچھتے کہ شاڑ شڑب بڑشڑ بڑشوں کا کیا جواب ہے؟ مسافر بے چارہ حیران رہ جاتا اور اس کی سمجھ میں شاڑ شڑب بڑشڑ بڑشوں کا کوئی جواب نہ آتا تو یہاں کے لوگ اس کو دیہات سے باہر نکال دیتے۔
ایک دفعہ اسی دیہات میں حضرت امیر خسروؒ دہلوی بھی کسی طرح پہنچ گئے آپ کو معلوم ہوگا بچو! کہ امیر خسرو کون تھے؟ واہ بھئی واہ! انہوں نے تو بڑی پیاری پیاری پہیلیاں بچوں کے ذہنی ورزش کے لئے لکھی ہیں، بات نکلی ہے تو ایک پہیلی سنا ہی دیتے ہیں:
اندر چلمن باہر چلمن اندر کو دل دھڑکے
امیر خسرو یوں کہے وہ دو دو انگل سرکے
ذرا بوجھئے تو پہیلی۔ اگر آپ نے ہارمان لی تو ہم آخر میں آپ کو جواب بتائیں گے۔
تو بات تھی امیر خسرو کے دیہات میں پہنچنے کی۔ بس کیا تھا پھر لوگوں نے ان کے ساتھ بھی وہی شرط رکھی کہ ہمارے ملا جی کے پاس چل کر ان کی بات کا جواب دو تو تمہیں روٹی پانی ملےگا ورنہ الٹے پاؤں رخصت ہونا پڑےگا۔
امیر خسرو کو اللہ تعالیٰ نے خوب عقل اور ذہن دیا تھا۔ ویسے ہی عقل و ذہن کے مالک تو تم بھی ہوتے ہو بچو! مگر اس کا تم لوگ صحیح استعمال نہ کر کے بڑے ہونے پر بھی بدھو بن جاتے ہو۔ کتنے افسوس کی بات ہے۔ امیر خسرو راضی ہو گئے اور کچھ لوگوں کے ساتھ ملا جی کے پاس مسجد پہنچے۔ بس کیا تھا پھر ملا جی نے کہا۔ شاڑ شڑب بڑشڑ بڑشوں کا جواب دو۔
امیر خسرو نے کہا۔ ’’ملا جی! یہ پہلے ہی شاڑ شڑب بڑشڑ بڑشوں کیسی؟ اس طرح کہو’’ :۔
دھان دھماکا دھمک دوں
چھان بچھوڑا چھڑ بڑشوں
ہانڈی ڈوئی کھڑ بڑکھوں
پھر شاڑ شڑب بڑشڑ بڑشوں
یعنی پہلے دھان کو کوٹو۔ پھر چھاج (سوپ) میں پچھوڑ کر، چاول نکالو اور ہنڈیا میں ڈال کر کھاؤ۔ پھر شاڑ شڑب بڑشڑ بڑشوں کرو یعنی دودھ ڈال کر چاول کھاؤ تو آواز بالکل شاڑ شڑب بڑشڑ بڑشوں کی طرح نکلے گی۔
ملا جی نے جو یہ جواب سنا تو ان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے اور تمام حاضر لوگوں نے خوشی میں آکر تالیاں بجائیں اور کہا کہ آج ملا جی ہار گئے۔ اب یہ ہمارے کام کے نہیں رہے، لوگوں نے ملا جی کو دیہات سے نکال دیا اور حضرت امیر خسروؒ کی بڑی خاطر تواضع کی وہ وہاں کئی دن مہمان رہے۔
اسی طرح ایک وقت امیر خسروؒ کسی گاؤں میں جا رہے تھے۔ پیاس لگی تو ایک کنویں پر کچھ پانی بھرنے والیوں کو دیکھ کے ان کے پاس جاکر پانی طلب کیا۔ ان میں سے ایک نے آپ کو پہچان لیا اور سب کو بتا دیا کہ پہیلی کہنے والے امیر خسروؒ ہیں۔ پھر کیا تھا: ایک ’’بولی پانی پینا ہے تو پہلے ایک ویسا دوہا سنائیے جس میں پانی مانگنے کا ذکر ہو۔‘‘ دوسری بولی۔ ’’دوہے میں چرخہ کا بھی ذکر ہونا چا ہئے۔‘‘ تیسری بولی۔ ’’اور چرخے کے ساتھ کتے کا بھی۔‘‘ چوتھی نے اور شرط لگا دی کہ ’’کھیر اور ڈھول کا بھی ذکر ہوگا تو پانی ملےگا۔‘‘
امیر خسروؒ تو حاضر جواب تھے ہی برجستہ کہا۔؎
کھیر پکائی جتن سے چرخا دیا جلا
آیا کتا کھا گیا تو بیٹھی ڈھول بجا
’’اب لا پانی پلا‘‘
پانی بھرنے والیاں سب کھکھلا کر ہنس پڑیں اور حضرت کو تازہ تازہ ٹھنڈا پانی پلا کر رخصت کیا اور حضرت بھی دعائیں دیتے آگے بڑھ گئے۔
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
OKAY
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
Close
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.
OKAY
You have remaining out of free content pages per year.Log In or Register to become a Rekhta Family member to access the full website.
join rekhta family!
You have exhausted 5 free content pages per year. Register and enjoy UNLIMITED access to the whole universe of Urdu Poetry, Rare Books, Language Learning, Sufi Mysticism, and more.