پیارے بچو کیا آپ کو معلوم ہے کہ پہاڑی بکرے جنھیں مار خور کہا جاتا ہے پاکستان کا قومی جانور ہیں آج میں آپ کو ایسے ہی ننھے منے بکری کے بچے کی کہانی سناتی ہوں۔ اماں بکری کے دو بچے ہیں ،ایک سوہنی جو بھورے رنگ کی ہے اور دوسرا سفیدا جو اپنے نام کی طرح سفید ہے۔ دونوں کی آنکھیں پیلی ہیں بہت ہی پیارے جیسے آپ سب ہیں۔ اپنی امی کی آنکھوں کے تارے۔
سوہنی تو ہر وقت اچھلتی کودتی گھاس کھاتی پھرتی ہےلیکن سفیدا بڑا ہی شرمیلا ہے۔ ہر وقت امی کی پیٹھ کے پیچھے چھپا رہتا ہے اس کی کسی سے دوستی بھی نہیں۔ جب سارے میمنے اور بکریاں پہاڑی پر چڑھ کر وادی کا نظارہ کرتے ہیں اور اوپر سے نیچے چھلانگیں لگاتے ہیں سفیدا بس دور سے بیٹھ کر ان کو کھیلتے دیکھتا رہتا ہے۔ سارے بچے میں میں اور بھیں بھیں کر کے شور مچاتے ہیں لیکن سفیدا بہت ہی کم بولتا ہے۔
دوسری اماں بکریاں اپنے بچوں کو سفیدے کی مثالیں دیتی ہیں ’’دیکھو ایک تم سب ہو۔ کتنا شور مچاتے اور چیختے چلاتے ہو لیکن سفیدا بالکل چپ چاپ رہتا ہے‘‘۔ لیکن اماں بکری کو یہ بات پسند نہیں کیونکہ ان کے خیال میں سفیدے کے شرمیلے پن کی وجہ سے وہ تمام اچھے کھیلوں میں پیچھے رہ جاتا ہے اور کسی بھی چیز سے دوسرے میمنے اور بکری بکریوں کی طرح لطف اندوز نہیں ہو پاتا اور یوں اس کے اندر ایک نا معلوم سا غصہ اور اداسی پنپنے لگی ہے۔
یہ بات نہیں کہ سفیدے کو بولنا نہیں آتا۔ اس کا بھی دل چاہتا کہ وہ بھی دوسرے بچوں کی طرح ہنسے بولے، کھیلے کودے، سچ بات تو یہ ہے کہ شرم کے مارے بس اپنی جگہ دب کر بیٹھنے میں اسے بالکل بھی مزہ نہیں آتا اب وہ صرف اداس ہی نہیں رہتا بلکہ اپنی بہن سوہنی پر اپنا غصہ نکالنے لگا ہےاور بات بے بات اس سے جھگڑتا ہے۔
آج بھی اماں بکری بہت ضد کرکے اسے اپنے ساتھ چراگاہ لائیں۔ سوہنی کو اپنی سہلیوں سے ملنے کی جلدی تھی وہ اچھلتی کودتی چھوٹی پہاڑی کے پار گھاس کے میدان میں جا پہنچی جہاں وہ سب پہلے ہی سے موجود تھیں۔ سوہنی نے سفیدے کو بھی اپنے ساتھ کھیل میں شریک کرنا چاہا لیکن وہ حسب معمول انکار کرکے ایک ٹیلے پر جا کے بیٹھ گیا جہاں اماں بکری دوسری بکریوں کے ساتھ گپ شپ میں مصروف تھیں۔
ابھی وہ ادھر ادھر کا جائزہ لے ہی رہا تھا کہ قریب کی جھاڑی میں کچھ سرسراہٹ سی ہوئی۔ پہلے تو سفیدا کچھ ڈرا لیکن پھر یہ دیکھ کر اسے ہنسی آ گئی کہ ایک ننھا منا اس کی طرح کا میمنا بالکل اسی کی طرح ڈر کر جھاڑی میں چھپا بیٹھا تھا۔ پہلے تو سفیدے نے اس ڈرپوک میمنے کو نظر انداز کر دیا لیکن پھر اپنے اندر عجیب سا اعتماد محسوس کیا۔ اس نے قریب جاکر ڈرے سہمے ہوئے میمنے کو تسلی دی اور بولا ’’ کوئی بات نہیں شرمیلا ہونا کوئی بری بات نہیں۔ دیکھو ہم سب تمہاری طرح ہیں آؤ میرے ساتھ کھیلو‘‘۔
تھوڑی دیر میں اماں بکری کو باتوں سے کچھ فرصت ملی تو انہوں نے سفیدے کو اپنے پیچھے نہ پا کر فکرمند ہو کر پہاڑی کی طرف دیکھا اور حیرت اور خوشی سے مسکرا دیں۔ سفیدے کو ایک دوست مل گیا تھا۔ وہ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے چراگاہ کی طرف خراماں خراماں ایک دوسرے کو اپنے گھر والوں کے بارے میں باتیں کرتے چلے جا رہے تھے۔
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
OKAY
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
Close
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.
OKAY
You have remaining out of free content pages per year.Log In or Register to become a Rekhta Family member to access the full website.
join rekhta family!
You have exhausted 5 free content pages per year. Register and enjoy UNLIMITED access to the whole universe of Urdu Poetry, Rare Books, Language Learning, Sufi Mysticism, and more.