سنہری تیتری
ہر روز کو جب نسیم کے ہلکے ہلکے خوش گوار جھونکے چلتے، کلیاں چٹکتیں، پھول مہکتے اور سورج کی کرنیں پودوں کو سنہرا زیور پہناتیں تو ایک سنہری تیتری ہوا میں ناچتی، اپنے رنگین پر جھلملاتی گاؤں میں آیا کرتی۔ گاؤں کے لڑکے اور لڑکیاں اسے للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے اور پکڑنے کے لئے اس کے پیچھے دوڑتے اور آپس میں کہتے ’’اتنی بڑی اور خوبصورت تیتری ہم نے آج تک نہیں دیکھی‘‘ کوئی کہتا ’’آہا اس کا رنگ کیا پیارا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے۔ گویا ایک روپہلی پتی پر پگھلا ہوا سونا ڈال دیا گیا ہے اور اس پر ہیرے موتی جڑ دیئے گئے ہیں۔‘‘ کوئی کہتا ’’کاش یہ دل لبھا لینے والی تیتری میرے بس میں ہوتی تو میں اس کی پیاری پیاری صورت کی بلائیں لیتا۔‘‘ غرض ہر ایک تیتری کا دیوانہ نظر آتا تھا۔ مگر تیتری بھی بلا کی چوکنی اور ہوشیار تھی وہ کسی کے ہاتھ نہ آتی۔ تھوڑی دیر ہوا میں اوپر ہی اوپر چکر کاٹتی اور پھر آن کی آن میں ایک طرف اڑتی ہوئی غائب ہو جاتی۔ ایک دن کا ذکر ہے کہ تیتری اڑتی اڑتی گاؤں کی ایک چھوٹی سی جھونپڑی کے پاس آئی۔ جھونپڑی کے باہر ایک پری سی خوبصورت لڑکی گڑیوں سے کھیل رہی تھی۔ اس کا چہرہ گلاب کے پھول جیسا خوبصورت تھا۔ آنکھیں بڑی بڑی اور رسیلی۔ بال سیاہ چمکیلے کمر تک لٹکے ہوئے نام اس کا چنداؔ تھا۔ تیتری چنداؔ کے سامنے آکر ناچنے پھدکنے لگی۔ تیتری کا نظر آنا تھا چنداؔ کھیل چھوڑ اس کے پیچھے دوڑی۔ پلک جھپکنے میں چنداؔ تیتری کی پیٹھ پر تھی۔ لڑکوں نے شور مچایا۔ ’’ار۔ ارے غضب ہوگیا، دوڑنا پکڑنا تیتری چنداؔ کو اڑا لے گئی‘‘۔ چنداؔ کی ماں نے جو یہ ماجرا دیکھا تو سر پیٹ کر رہ گئی۔ سارے گھر میں کہرام مچ گیا۔ راجہ کے کانوں میں یہ خبر پہنچی تو اس نے رتھ سجایا اور تیتری کا پیچھا کیا مگر تھوڑی دیر میں تیتری نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ راجہ مایوس ہو کر اپنے محل کو واپس آیا۔ اب چنداؔ تیتری کے ملک میں تھی۔ وہاں رنگ برنگ کی تیتریاں رہتی تھیں مگر چنداؔ اب انہیں پکڑنے کی کوشش نہیں کرتی۔ وہاں طرح طرح کے پھول کے بستر، پھول کے مکان اور پھولوں کے شہد کی بنی ہوئی کھانے پینے کی چیزیں موجود تھیں۔ چندا نہ کچھ کھاتی نہ پیتی۔ غم کی تصویر بنی بیٹھی رہتی اور سسکیاں لے لے کر روتی۔ دن یوں ہی گزرتے گئے۔ ایک دن تمام تیتریاں پھولوں کی شہد جمع کرنے کہیں دور نکل گئی تھیں۔ سنہری تیتری چپ چاپ چنداؔ کے پاس آئی اور کہنے لگی ’’چنداؔ تم سے ایک بات کہوں سنوگی؟‘‘ چنداؔ تیتری کو انسانوں کی طرح بات کرتے دیکھ کر حیران رہ گئی۔ ’’بولی ہاں سنوں گی‘‘ تیتری نے کہا ’’میں بھی تمہاری طرح انسان ہوں تمہارے دیس کا راج کمار۔ کیا تم مجھے انسان بنا دوگی؟‘‘ چندا نے تیتری کی پیٹھ پر آہستہ آہستہ ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا میں تمہیں کس طرح انسان بنا سکتی ہوں؟ اس کے بعد تیتری نے چندا کے کان میں کچھ کہا جسے سن کر چندا خوش ہو گئی۔ اس ملک میں ایک بوڑھی جادوگرنی رہتی تھی۔ جو لڑکوں لڑکیوں کو تیتری بنا بنا کر چھوڑا کرتی تھی۔ ایک دن جب بڑھیا بےخبر سو رہی تھی، چندا دبے پاؤں اس کے پاس گئی اور اس کے سر کے بالوں کا ایک لچھا کاٹ کر اس میں آگ لگا دی۔ بالوں میں آگ لگنی تھی کہ بڑھیا کے بدن میں بھی آگ لگ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ جل بھن کر راکھ ہو گئی۔ تب چنداؔ نے اس میں سے تھوڑی سے راکھ لے لی۔ ادھر سنہری تیتری ناچتی ناچتی آئی چندا کو پیٹھ پر بٹھا لیا۔ تمام تیتریوں نے سنہری تیتری کے گرد حلقہ باندھا اور سب اڑنے لگیں۔ سنہری تیتری اڑتی اڑتی اسی جھونپڑی کے قریب پہنچی جہاں سے وہ چندا کو اڑا لے گئی تھی۔ گاؤں کے لڑکوں لڑکیوں نے شور و غل سے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ ’’چندا آگئی چندا آ گئی۔‘‘ وہ دیکھو تیتری نے اسے زمین پر اتار دیا۔ یہ سن کر چنداؔ کی مان دیوانوں کی طرح دوڑتی ہوئی گھر سے نکل آئی اور کہنے لگی۔’’ چندا کہاں ہے۔ میری چندا، میرے جگر کا ٹکڑا، میری آنکھوں کی پتلی‘‘ پھر چندا کو دیکھ کر گلے سے لگا لیا۔ بلائیں لیں۔ خوشی کے مارے بے چاری ماں کی آنکھوں سے آنسو ابل پڑے چنداؔ بھی سسکیاں لے لے کر روتی رہی۔ ادھر راجہ یہ خبر پاتے ہی تیرو کمان لے کر آیا۔ سنہری تیتری کو نشانہ بنایا ہی چاہتا تھا کہ چندا قدموں پر گر گئی اور بولی ’’مہاراج رحم کیجئے۔ یہ تیتری نہیں بلکہ راج کمار ہے‘‘ یہ کہتے ہی چندا نے راکھ سنہری تیتری کے پروں پر ڈال دی۔ آن کی آن میں سنہری تیتری کی جگہ ایک خوبصورت راج کمار کھڑا تھا۔ راجہ نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور یہ کہتے ہوئے گلے سے لگا لیا ’’میرے لعل، میرے کمار، میرا کھویا ہوا من‘‘ کمار نے راجہ کے قدموں کی دھول اپنے ماتھے پر لگائی اور راجہ سے کہا ’’مہاراج مالن کے اس قرض کو کس طرح ادا کروں گا‘‘ مالن خود بول اٹھی۔ ’’کمار اپنے قدموں کی دھول دے‘‘ راجہ بے حد خوش ہوا۔ دونوں کو بہت بہت دعائیں دیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.