Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سورج گیا نانی کے گھر

نصرت شمسی

سورج گیا نانی کے گھر

نصرت شمسی

MORE BYنصرت شمسی

    مما یہ اتنے دن سے سورج چاچو کہاں چلے گئے ہیں۔ آہی نہیں رہے۔ کڑکتی ٹھنڈ اور مما کے نہانے کے اعلان نے علی کو بے چین کر دیا، اب وہ نہانے کے تصور سے ہی کپکپارہا تھا۔ اس نے منہ اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا جہاں دور دور تک کہرا چھایا ہوا تھا۔ ٹھنڈ سے دانت جمے جارہے تھے۔ سورج جیسے کہیں گم ہوگیا تھا۔ کڑاکے کا جاڑا پڑتے آج دسواں دن تھا اور محکمہ موسمیات بتا رہا تھا کہ ابھی دس دن سورج اور غائب رہے گا۔ اس زبردست ٹھنڈ سے ہر چیز سکڑی سمٹی اپنی جگہ ٹھٹھری پڑی تھی۔ دل چاہتا تھا کہ ہر وقت لحاف میں گھسے رہو۔ اب ایسے میں نہانے کا تصور ہی جان لیوا محسوس ہو رہا تھا۔

    ’’علی چلو پانی تیار ہے بیٹا، نہانے کے لئے اٹھ جاؤ‘‘

    مما نے علی کے کپڑے غسل خانے میں رکھتے ہوئے آواز لگائی۔

    ’’مما ایک دن اور رک جائیے۔ کل نہلا دینا‘‘۔ علی نے لحاف میں منہ چھپاتے ہوئے کہا۔

    ’’نہیں بچہ بہت گندے ہو رہے ہو۔ چلو شاباش اٹھ جاؤ جلدی سے۔

    ’’دیکھو دادو نے انگیٹھی جلائی ہے۔ نہا کر ان کے پاس بیٹھ جانا۔ گرمائی آجائے گی۔‘‘

    ’’مما! لیکن میری سمجھ میں یہ نہیں آرہاکہ سورج چاچو کہاں کھو گئے ہیں؟‘‘

    ’’علی آجاؤ بیٹا، میں نہاتے ہوئے سورج کی کہانی سناؤں گی۔ سورج آج کل نانی کے گھر گیا ہوا ہے۔ چلو شاباش! جلدی آجاؤ۔‘‘

    ’’مما‘‘

    علی نے پھر بھرائی ہوئی آواز نکالی ’’ٹھنڈ لگ رہی ہے۔‘‘

    ’’علی!‘‘

    مما نے زور سے آواز لگائی۔

    مما کی ناراضگی والی آواز سن کر علی دوڑتا ہوا غسل خانے تک چلا گیا۔

    ’’مما سورج والی کہانی۔‘‘

    ’’ہاں ہاں بیٹا ابھی سناتی ہوں۔ ذرا گرم پانی کو اپنے پیروں پر ڈالو‘‘

    گرم پانی پڑتے ہی علی کو ٹھنڈ لگنا ختم ہوگئی اور مما نے اسے نہلانا شروع کردیا۔

    ’’ہاں تو بیٹا علی اب بتاؤ سورج چاچو کہاں چلے گئے؟ علی آپ کو میں نے بتایا تھا کہ یہ زمین جس پر ہمارا گھر ہے یہ انڈے جیسی شیپ کی ہے۔ یعنی گول بھی ہے اور تھوڑی لمبی بھی ہے بالکل انڈے کی طرح۔‘‘

    ’’جی مما۔‘‘

    کپکپاتے ہوئے علی نے جواب دیا اور سر پر لگے شیمپو سے کھیلنے لگا۔

    ’’شاباش! اور زمین کے نیچے ایک لٹو جیسی پھرکی ہوتی ہے۔ جیسے لٹو کو گھما کر چھوڑ دیتے ہیں تو وہ نوک کے سہارے گھومتا رہتا ہے بس اسی طرح ہماری یہ زمین ہر وقت گھومتی رہتی ہے اور یہ تھوڑی ترچھی سی گھومتی ہے۔ مما نے اپنا ہاتھ لائٹ کے آگے سیدھا کیا اور پھر ترچھا کیا اور علی کو دکھایا کہ دیکھو میرے ہاتھ پر لائٹ کیسی پڑ رہی ہے۔‘‘

    ’’مما آپ نے ہاتھ آرا کر لیا ہے تو لائٹ ہاتھ کے کسی حصے پر آرہی ہے اور کسی پر نہیں۔ اسے سیدھا کریں تاکہ یہ سب جگہ آجائے۔‘‘

    شاباش! میرا بیٹا بہت سمجھدار ہوگیا ہے۔ بس ایسی ہی زمین چلتی رہتی ہے اور چلتے چلتے ہماری زمین والا حصہ سورج سے دور ہوجاتا ہے۔ تم اس لائٹ کو سورج سمجھ لو اور دیکھو اس کی لائٹ میرے ہاتھ کے جس حصے پر نہیں پڑ رہی ہے تو اس حصے تک سورج نہیں آپاتا ہے اور پھر کڑاکے کی ٹھن پڑتی ہے اور سورج گم ہوجاتا ہے یا یوں کہہ لو کہ سورج نانی کے گھر چلا جاتا ہے جیسے آپ جاتے ہیں تو پاپا کی نظروں سے دور ہوجاتے ہیں اسی طرح وہ بھی اپنی نانی کے گھر چلا گیا۔ سمجھو کچھ دنوں بعد جب زمین گھومتے گھومتے اوپر کی طرف آجائے گی تو سورج واپس آجائے گا اور موسم بدل جائے گا۔ آگیا سمجھ میں؟‘‘

    ’’جی مما۔ اب میں اپنے دوستوں کو بتاؤں گا کہ سورج اپنی نانی کے گھر گیا ہوا ہے۔ مما ٹھنڈ لگ رہی ہے۔‘‘

    ’’ہاں ہاں علی بس ہوگیا۔ دیکھو آپ نے نہا بھی لیا اور پتہ بھی نہیں چلا۔ چلو اب بھاگو دادو کے پاس اور انگیٹھی کے پاس بیٹھ کر دادو کو سورج کے کھو جانے کی کہانی سناؤ۔‘‘

    ’’ارے سورج نانی کے گھر گیا ہے۔ کھویا کب ہے؟‘‘ علی نے دادو کے کمرے کی طرف دوڑ لگائی جہاں انگیٹھی سے چڑپڑ شعلے اٹھ رہے تھے اور کمرے کو گرم کر رہے تھے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے