Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ٹیگو اورشیرو

سمیرا انور

ٹیگو اورشیرو

سمیرا انور

MORE BYسمیرا انور

    ’’چیتے انکل! ٹیگو نے مجھے آج پھر مارا ہے اور اس نے میرا پاؤں بھی زخمی کر دیا ہے۔‘‘ ننھے شیرو نے ان کے لاڈلے سپوت کی شکایت لگاتے ہوئے کہا۔

    ’’تم دونوں ہر وقت لڑتے رہتے ہو، کبھی تو اپنی حرکتوں سے باز آ جایا کرو۔‘‘ چیتے انکل اس کو غصے سے گھورنے لگے۔ ان کے تیور دیکھتے ہوئے شیرو کان کھجاتے ہوئے خاموشی سے گھر کی طرف مڑ گیا۔ دراصل ٹیگو چیتے انکل کا شرارتی بچہ تھا جو اکلوتا ہونے کے باعث بہت خودسر اور بےپروا تھا۔ ہر وقت کسی نہ کسی کے ساتھ جھگڑے میں مصروف رہتا تھا۔ شیرو جو چیر انکل کا بیٹا تھا وہ شرارتی تو تھا مگر اس طرح ہر کسی کے ساتھ جھگڑا نہیں کرتا تھا۔ ٹیگو کے ساتھ اس کی دوستی تھی لیکن جب کبھی وہ تھوڑا سا بھی کسی کام سے انکار کرتا تو پھر اس کی خیر نہ ہوتی۔ آج بھی اس نے شیرو سے خالہ بلی کے چھوٹو کو پکڑنے کے لیے مدد چاہی تو اس نے انکار کردیا کیونکہ اس کو خالہ بلی کے چھوٹو سے بہت پیار تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ ٹیگو اس کا شکار کرے۔ اس وجہ سے ان کے درمیان زبردست لڑائی ہوئی۔

    ’’ٹیگو! تم اپنی حرکتوں سے باز آ جاؤگے یا نہیں، تمہاری وجہ سے مجھے سب کے سامنے شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔‘‘ چیتے انکل نے گھر واپسی پر ٹیگو کی خبر لیتے ہوئے کہا۔

    ’’ابا اب میں نے کیا کر دیا ہے؟‘‘ وہ بیزاری سے بولا۔ ’’ابھی راستے میں خالہ بلی نے بہت دکھی انداز سے اپنے چھوٹو کی زندگی کی التجا کی ہے، گم نے اس کو پکڑنے کی ترکیب جو لڑائی تھی اسی لئے وہ خوف زدہ ہو کر میرے پاس آ گئیں اور انہوں نے تمہاری شکایت کی ہے۔‘‘ وہ گرجتے ہوئے اس کی طرف مڑے۔

    ’’صرف ترکیب ہی سوچی تھی، ابھی کچھ کہا تو نہیں ہے نا!‘‘ ٹیگو میاں ڈھٹائی سے بولے۔

    ’’اگر تم نے اب ایسی حرکت کی تو پھر تمہارا حال بہت برا ہوگا‘‘ انہوں نے اس کو دھمکاتے ہوئے کہا جسے اس نے ہمیشہ کی طرح ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑا دیا۔

    ’’شیرو! کدھر ہو یار؟ کیا تم ابھی تک مجھ سے ناراض ہو؟‘‘ ٹیگو نے درخت کے نیچے خاموش بیٹھے شیرو کو پکارتے ہوئے کہا۔

    ’’تمہیں اس بات سے کیا پڑتا ہے؟ تمہیں صرف اس بات سے کیا فرق پڑتا ہے؟ تمہیں صرف دوسروں کو تنگ کرنے اور دکھ پہنچانے میں ہی مزہ آتا ہے۔‘‘ شیرو نے منہ دوسری طرف کرتے ہوئے کہا۔

    ’’تم میرے کیسے دوست ہو جو میری کسی بھی طرح مدد کرنے کے بجائے نصیحتوں کا پلندہ سامنے رکھ دیتے ہو۔‘‘ ٹیگو نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔

    ’’میں تمہیں ہر اس کام سے منع کرتا ہوں جس سے کسی کو نقصان پہنچے اور تم ہو کہ بغیر کسی وجہ سے دوسروں کو تکلیف دیتے ہو۔‘‘ شیرو نے خفگی سے کہا۔

    ’’اچھا چھوڑو، ابھی تو ہم ندی پر جا رہے ہیں، اس لیے مجھے مزید کچھ نہیں سننا۔‘‘ ٹیگو نے ضدی لہجے میں کہتے ہوئے اس کو اٹھایا۔

    ’’اب وہاں جاکر کیا کارنامہ کرنا ہے، یہ بھی بتا دو۔‘‘

    شرو نے غصے سے کہا تو اس کی بات سن کر ٹیگو نے زور دار قہقہہ لگایا اور پھر وہ دونوں وہاں سے ندی کی طرف چل دیے۔

    ندی پر بہت سے جانور سیر کے لیے آئے ہوئے تھے سب خوشی خوشی اچھل کود کر رہے تھے۔ ننھا ہرن تو ٹیگو کی خوں خوار آنکھوں سے ڈرتے ہوئے اپنی ماں کے پیچھے ہی چھپ گیا۔ شیرو نے آنکھوں کے اشارے سے اس کو سمجھانا چاہا کہ سب ہی کچھ وقت پر سکون ماحول میں گزارنے آئے ہیں۔ اس لیے کچھ مت کرنا، مگر وہ ٹیگو ہی کیا جس کی سمجھ میں کوئی بات آئی ہو۔

    زیبرے اور ہرن کے بچے آپس میں کھیل کود رہے تھے اور ٹھنڈے پانی کے مزے لے رہے تھے۔ ٹیگو سے ان کی خوشی برداشت نہ ہوئی اور جلدی سے ان کے قریب چلا آیا اور ننھے ہرن کو ایک ہی جست میں دبوچ کر ندی سے باہر پٹخ دیا۔ شیرو نے آگے بڑھنا چاہا مگر ٹیگو نے اس کو پیچھے کرتے ہوئے زیبرو کو کھینچ لیا اور دھاڑتے ہوئے بولا: ’’اس ندی پر صرف ہمارا حق ہے تم سب کس لیے یہاں آئے ہو؟‘‘

    ’’ہمیں معاف کر دیں، ہم یہاں سے چلے جاتے ہیں۔‘‘ ننھے ہرن نے روتے ہوئے کہا تب تک اس کی اماں بھی دوڑتی ہوئی وہاں چلی آئیں اور اپنے بچے کو لپٹاتے ہوئے وہاں سے دور لے گئیں۔ شیرو نے اس کا ہاتھ روک لیا تھا ورنہ وہ ان کا حلیہ خراب کر ڈالتا۔ اس کی شدت پسند طبیعت نے شیرو کو بھی خوف زدہ کر دیا تھا۔ سب کے جانے کے بعد وہ دونوں ندی میں نہانے لگے۔ شیرو نے بہت روکنے پر بھی ٹیگو ندی میں بہت آگے تک چلا گیا۔ اس کو گہرے پانی میں بہت مزہ آ رہا تھا کہ اچانک اس کو اپنا پاؤں کسی نوکیلی چیز میں پھنستا محسوس ہوا۔ اس نے جلدی سے نیچے دیکھا تو اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے، کیونکہ ایک بہت بڑا مگرمچھ اس کا پاؤں دبوچے اس کو اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔ ٹیگو نے بہت زور آزمائی کی مگر وہ اپنا پاؤں اس کی گرفت سے نہیں نکال پا رہا تھا۔ ٹیگو چیخنے لگا کیوں کہ اب وہ کچھ بھی نہیں کر پا رہا تھا۔ شیرو بھی ندی کی دوسری طرف جاکر آرام کرنے لگا کہ جب ٹیگو اپنا شوق پورا کر لےگا تب خود ہی واپس آ جائےگا۔ ٹیگو نے خود کو بےبس پایا کیونکہ موت اس کو اپنے سامنے دکھائی دے رہی تھی۔ اس کو بے ساختہ اپنی غلطیاں اور زیادتیاں یاد آئیں جو وہ دوسروں کے ساتھ بہت بے دردی سے کرتا تھا۔ اس نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ اس کا بھی کبھی ایسا ہو سکتا ہے۔ اس نے اپنی آنکھیں خوف کے مارے بند کر لیں۔

    ’’آہ!‘‘ ایک چیخ نکلی اور وہ ایک جھٹکے سے دور جا گرا۔ اس نے آنکھیں کھولیں تو مگرمچھ تیزی سے دوسری طرف بھاگ رہا تھا۔ اس کے منہ میں ایک مچھلی تھی۔ ’’اللہ تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھے بچا لیا اور مگرمچھ کو دوسرا شکار دے دیا جس سے میری جان بچ گئی۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ تیزی سے کنارے پر پہنچ گیا اتنی دیر میں شیرو بھی آ پہنچا۔ وہ دونوں واپس جنگل آ گئے لیکن ٹیگو کے دل کی حالت بدل چکی تھی۔ وہ اب کسی سے نہیں لڑتا اور نہ ہی کسی کو بلاوجہ تنگ کرتا ہے۔ شیرو اور چیتے انکل نے بارہا اس تبدیلی کی وجہ سے پوچھی مگر وہ ہنس کر ٹال دیتا لیکن وہ اس تبدیلی پر بہت خوش تھے اور اب ان کی زندگی پرسکون گزر رہی تھی۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے