تکیہ کلام
واضح ہو کہ مچھلیوں کی طرح اس کی بھی کئی اقسام ہیں۔ نہ ان کا شمار ممکن ہے، نہ ان کا حساب آسان یعنی صرف ایک ہی جملہ ہر شخص کا تکیۂ کلام نہیں ہو سکتا۔ اس لئے اب ہم اس کی اقسام سے تو بحث کریں گے نہیں۔ البتہ ہمیں اپنے تجربے کا ایک واقعہ پیش کر دیتے میں عذر نہیں ہے۔ آج سے پندرہ برس پہلے کا ذکر ہے زمانہ طالب علمی کا تھا۔ مولوی کریم اللہ صاحب کا مکتب کون نہیں جانتا۔ آدمی تھے عالم پڑھانے کا طریقہ بھی برا نہ تھا۔ چالیس پچاس لڑکے شریک مدرسہ تھے۔ وقت اور وضع کی پابندی مولانا کا طرۂ امتیاز تھا۔ سب سہی مگر مولانا کا تکیہ کلام تھا (جو ہے سو ہے) رشید جب پہلے مدرسے میں شریک ہوا تو اس کی عمر چھ سات سال سے زیادہ نہیں تھی۔ پہلے روز تو خیر پڑھنے لکھنے کا ذکر ہی کیا۔ وقت کی پابندی بھی ضروری نہیں ہے۔ دوسرے روز مولانا سب سے پہلے رشید کی طرف متوجہ ہوئے۔
مولانا کے اشارہ پر رشید نے جس قدر پہلے پڑھ چکا تھا، ازبر سنا دیا اب نیا سبق تھا۔ مولانا کا غصے کے ساتھ اسی جملے کو دہرانا اور رشید کا ایک اطاعت مند شاگر کی طرح لرزتے روتے ہوئے ایک ایک حرف زبر زیر بلکہ لب و لہجہ کو بھی نہایت صفائی کے ساتھ ادا کرنا بس دیکھنے ہی سے تعلق رکھتا تھا۔ اگر مولانا کی قمچی ہماری نظروں کے سامنے نہ ہوتی تو یقین مانئے ہم سب ہنستے ہنستے لوٹن کبوتر بن جاتے۔
بالآخر مولانا تن تنگ ہو کر رشید کے ایک قمچی رسید کی اور فرمایا میں کہوں جو ہے سو ہے تو نہ کہہ جو ہے سو ہے۔ الف زبر آ جو ہے سو ہے۔
رشید روتے ہوئے۔ میں کہوں جو ہے سو ہے تو نہ کہہ جو ہے سو ہے۔ الف زبر آ جو ہے سو ہے۔
اب کیا تھا مولانا کا غصہ اپنی پوری حرارت پر آ گیا۔ غریب رشید کے کان اینٹھے طمانچے مارے بےحساب قمچیاں لگائیں اور خود ہی بیزار ہو کر خاموش ہو گئے۔
تھوڑی دیر بعد مجھ سے کہا کہ حامد ادھر آؤ جو ہے سو ہے۔ اس نالائق کو جو ہے سو ہے اس کے گھر لے جاؤ۔ جو ہے سو ہے۔ اس کے والد سے کہو جو ہے سو ہے۔ یہ گدھا ہے جو ہے سو ہے۔ پڑھے گا نہیں جو ہے سو ہے۔ ہم پڑھائیں گے نہیں جو ہے سو ہے۔ بس لے جاؤ۔ جو ہے سو ہے۔ میں اس حکم کے ساتھ رشید کو ہمراہ لے کر مدرسے سے باہر آ گیا رشید کی حالت واقعی قابل رحم تھی۔ کان سرخ، گال تمتمائے ہوئے اور قمچیوں کی مار سے تمام جسم پر ورم آ گیا تھا۔ مجھ سے اس کی یہ حالت دیکھی نہ گئی۔ مجبور تھا۔ سمجھاتے مناتے اس کے گھر لے گیا۔ اتفاق کی بات دیکھئے رشید کے والد کسی وجہ سے کچہری نہیں گئے۔ گھر پر ہی تھے بیٹے کی یہ حالت زار دیکھ کر پریشان ہو گئے۔ پوچھا یہ کیا معاملہ ہے۔ میں نے سب واقعات صحیح صحیح سنا دیئے۔
رشید کی والدہ سب واقعات خاموشی کے ساتھ سن رہی تھیں۔ آخر میں اپنے میاں سے کہا، دیکھا آپ نے یہ ہے آپ کی بےموقع کوشش کا نتیجہ۔ کہتی ہی رہی کہ ابھی اس کی عمر ہی کیا ہے۔ مدرسہ نہ بھیجو، گھر پر ہی پڑھاؤ مگر ہماری سنتا کون ہے۔ ہم ٹھہرے نا آخر غیر۔ چھ برس کی جان اور پہلے ہی سبق پر بےقصور اتنا پٹ گیا کہ خدا کی پناہ۔ جسم تو دیکھو قمچیوں سے کیسا سوج گیا ہے۔ کان دیکھو کیسے سرخ انگارے ہو رہے ہیں۔ گال سے دیکھو خون ٹپکا پڑتا ہے۔ الٰہی ٹوٹیں ہاتھ اس کے جس نے میرے لعل کو بےخطا اتنی تکلیف پہنچائی پنجتن پاک اس معصوم کا بدلہ لیں اس موذی سے۔ اس کے بعد مجھ سے ٹھہرا نہ گیا۔ میں سیدھے گھر گیا۔ اور والدہ صاحبہ کو سارا واقعہ سنایا۔ اور کہا کہ میں اب کبھی اس مدرسے میں نہ جاؤں گا۔ مجھے دوسرے مدرسے میں شریک کرا دیجئے۔ چنانچہ دوسرے روز والد صاحب نے مجھے ایک سرکاری مدرسے میں شریک کرا دیا۔ چند ہی روز میں سنا کہ مولوی کریم اللہ صاحب کو مدرسے بند کر دینا پڑا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.