تالاب اور کنواں
ایک تھا تالاب، ایک تھا کنواں۔ دونوں ایک دوسرے کے پڑوسی تھے، اچھے دوست تھے۔ گھنٹوں باتیں کرتے، ساتھ وقت گزارتے۔ دنیا بھر کے کنوؤں اور تالابوں کی باتیں، ان کے نزدیک سے گزرنے والے مسافروں کی باتیں، بارش، سردی، گرمی موسموں کی باتیں، پانی کے میٹھے۔ کھارے ہونے کی باتیں خاص موضوع ہوتیں۔
وہ اکثر ہی اپنے اپنے پانی کے میٹھے ہونے پر خوشی ظاہر کرتے، اس بات پر فخر کرتے کہ ان کا پانی لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ تھکے ہارے مسافروں کی پیاس بجھاتا ہے۔
ایک سال خوب بارش ہوئی۔ اتنی زیادہ اتنی زیادہ کہ سوکھے ندی نالے سب بھر گئے۔ جو ندی تالاب کنویں بھر گئے تھے وہ اپنی اپنی حد سے باہر ہونے لگے۔ چاروں طرف پانی نظر آنے لگا۔
ایک دن تالاب بلوریں لیتے ہوئے اپنے پانی کو بغور دیکھ رہا تھا۔ نہ جانے اس کے دماغ میں کون سا کیڑا کلبلایا بول پڑا۔
’’کنوئیں بھائی! ذرا دیکھو تو میری شان! میری چوڑائی، میری وسعت! جہاں تک نظر جاتی ہے میں ہی میں نظر آتا ہوں۔‘‘
’’بارش اچھی ہوئی ہے نا! میں بھی تو اوپر تک بھر گیا ہوں۔‘‘ کنوئیں نے کہا۔
تالاب کو کنوئیں کا خود کے برابر ٹھہرایا جانا ناگوار گزرا، فوراً بول پڑا، ’’بھرتوگئے ہو مگر ہو وہیں کے وہیں، منڈیر میں قید‘‘
کنواں سٹ پٹا گیا۔۔۔ گھبرا کر بولا۔ ’’تالاب بھائی! تمہارا لہجہ بدل کیوں گیا ہے؟ کیا کہا تم نے ابھی؟ ارے ہم دوست ہیں دوست! کوئی اس طرح بات کرتا ہے دوست سے؟‘‘
’’صحیح کہا، دوست ہیں ہم۔ مگر دوستی اپنی جگہ، اوقات اپنی جگہ۔‘‘ تالاب نے سنگ دلی سے کہا۔ ’’مجھ سے بحث کروگے؟ میری برابری کروگے؟ ذرا میری طرف دیکھو۔ میرا کنارہ نظر نہ آئے گا، دس گنا تم سے بڑا ہوں۔ میں نے اپنی وسعت کا ذکر کیا تو تم خود کو عظیم ٹھہرانے لگے۔‘‘
کنواں کچھ نہ بول سکا۔ اسے ذلت کا بے انتہا احساس ہو رہا تھا۔ یہ بھی کوئی بات ہوئی۔ بچپن سے جسے ساتھ دیکھا وہ تالاب یکسر کیسے بدل گیا؟ بدلا بھی تو ایسے بدلا کہ دوستی کا لحاظ سب طاق پر رکھ دیا۔
تالاب نے کنوئیں سے بات کرنا بند کردیا۔ دن گذرے تالاب کا پانی آہستہ آہستہ کم ہونے لگا تو تالاب کو اپنی غلطی کا احساس ہونے لگا۔ اسے اپنے سلوک پریشیمانی ہونے لگی۔ وہ کنواں کہیں اسے دھتکار نہ دے۔ وہ یہ بھول گیا تھا کہ سب تو اس جیسے نہیں ہیں۔ دنیا میں اچھے لوگ بھی ہیں جن میں کنوئیں کا بھی شمار ہوتا ہے۔
آخر ہمت کر کے تالاب ہی نے بات نکالی۔ بولا، ’’کنوئیں بھائی! دیکھ رہے ہو؟ میرا پانی کتنا کم ہوگیا ہے۔‘‘
’’پانی کم یا زیادہ ہوتا ہی رہتا ہے۔ قدرت کا نظام ہے یہ۔‘‘ ’’تمہارے پانی کا کیا حال ہے؟‘‘
’’کافی ہے بلکہ کافی سے زیادہ ہے۔‘‘ کنوئیں نے سادگی سے کہا۔
’’اچھا! بڑی اچھی بات ہے!!‘‘ تالاب مسکرا کر بولا۔ اس کا خوف رفع ہوگیا تھا۔
ہاں! اچھی بات ہی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ میں بارش پر منحصر نہیں رہتا۔ محنت کر کے اندر ہی اندر پانی جمع کرتا رہتا ہوں۔ یہ نہ کروں توسوکھ جاؤں گا پھر مسافروں کی پیاس کیسے بجھے گی؟‘‘
تالاب سوچنے لگا۔ ’’کنوئیں نے پرانی بات نہیں نکالی، طعنہ نہیں دیا۔ خود میں پانی بھرا ہونے کی ڈینگ نہیں ماری۔ کتنا اچھا ہے وہ! مجھے اس سے سبق سیکھنا چاہئے۔‘‘
کنواں کہہ رہا تھا، ’’بھائی تالاب!، خوشی مانگنے سے نہیں ملتی، نہ کسی کا دل دکھا کر ملتی ہے۔ خوشی اپنے اندر پیدا کرنی پڑتی ہے، چھوٹی چھوٹی باتوں سے حاصل ہوتی ہے۔‘‘
تالاب نے سرجھکا کر تسلیم کیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.