فارس کا سلطان بڑا دانا مشہور تھا۔ اسے مسئلے سلجھانے، پہیلیاں بجھانے اور معمے حل کرنے کا بھی شوق تھا۔ ایک دن اسے کسی کا بھیجا ہوا تحفہ ملا۔ بھیجنے والا سلطان کے لئے اجنبی تھا۔ سلطان نے تحفے کو کھولا اس میں سے ایک ڈبہ نکلا۔ ڈبے کے اندر لکڑی کی تین خوبصورت گڑیاں نظر آئیں جنہیں بڑے سلقیے سے تراشا گیا تھا۔ اس نے ایک ایک کر کے تینوں گڑیوں کو اٹھایا اور ہر ایک کی کاریگری کی خوب تعریف کی۔ اس کا دھیان ڈبہ پر گیا جہاں ایک جملہ تحریر تھا: ’’ان تینوں گڑیوں کے درمیان فرق بتائیے۔‘‘ ان تینوں گڑیوں کے درمیان فرق بتانا سلطان کے لئے ایک چیلنج تھا۔ اس نے پہلی گڑیا کو اٹھایا اور اس کا مشاہدہ کرنے لگا۔ گڑیا کا چہرہ خوبصورت تھا اور وہ ریشم کے چمکیلے کپڑوں میں ملبوس تھی۔ پھر اس نے دوسری گڑیا کو اٹھایا۔ وہ بھی پہلی گڑیا جیسی ہی تھی اور تیسری بھی ویسی ہی تھی۔
پھر سلطان نے گڑیا کا نئے سرے سے مشاہدہ کرنا شروع کیا۔ وہ سب ظاہراً یکساں تھیں۔ لیکن سلطان نے سوچا شاید تینوں میں سے آنے والی بو یکساں نہ ہو۔ چنانچہ اس نے تینوں گڑیوں کو باری باری سونگھا۔ تینوں میں سے صندل کی خوشبو آ رہی تھی جس سے اس کے نتھنے معطر ہو گئے۔ صندل کی لکڑی سے انہیں بڑی نفاست سے بنایا گیا تھا۔ اس نے سوچا شاید یہ اندر سے کھوکھلی ہوں۔ انہیں کان کے پاس لے جاکر ہلانا شروع کیا لیکن تینوں گڑیاں ٹھوس تھیں اور تینوں ہم وزن بھی تھیں۔ سلطان نے دربار بلایا۔ دربار میں سلطان بڑا ہی متذبذب نظر آ رہا تھا۔ لوگ اسے دیکھ کر حیران تھے۔ اس نے دربار کے سامنے اعلان کیا کہ جو تم میں سے دانا ہو وہ آگے آئے، جس نے اپنی زندگی کا بیش تر حصہ لائبریریوں میں صرف کیا ہو وہ بھی آگے آئے۔
ایک اسکالر اور ایک قصہ گو آگے آئے۔ سب سے پہلے اسکالر نے گڑیوں کا مشاہدہ کرنا شروع کیا۔ اس نے انہیں سونگھا، ان کا وزن کیا اور انہیں ہلا ڈلاکر دیکھا لیکن وہ کسی طور بھی کوئی فرق نہ پا سکا۔ وہ دروازے کے پاس گیا اور الگ الگ زاویوں سے انہیں دیکھنا شروع کیا۔ پھر اس نے گڑیوں کو ہاتھ میں اٹھایا اور ان پر جادو ٹونے کی طرح ہاتھ ہلانے لگا۔ تھوڑی دیر بعد وہ خود اپنے فعل سے اکتا گیا اور انہیں میز پر رکھ کر وہاں سے ہٹ گیا۔
بہر کیف اسکالر گڑیوں میں امتیاز نہ کر سکا۔ اس نے قصہ گو کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’کیا تم گڑیوں کے فرق کی شناخت کر سکتے ہو!‘‘
قصہ گو نے پہلی گڑیا اٹھائی اور بڑی احتیاط سے اس گڑیا کا مشاہدہ کرنا شروع کیا۔ پھر اچانک اسے نہ جانے کیا خیال آیا۔ وہ آگے کی طرف بڑھا اور سلطان کی داڑھی کا ایک بال نوچ لیا۔ اس بال کو اس نے گڑیا کے کان میں ڈالا۔ وہ بال گڑیا کے کان میں چلا گیا اور غائب ہو گیا۔ قصہ گو نے کہا ’’یہ گڑیا اس اسکالر کی طرح ہے جو سب کچھ سنتا ہے اور اپنے اندر رکھ لیتا ہے۔‘‘ اس سے پہلے کے سلطان اسے روکتا پھر قصہ گو نے آگے بڑھ کر اس کی داڑھی کا دوسرا بال نوچ لیا۔ اس نے دوسری گڑیا کے کان میں بال ڈالا۔ دھیرے دھیرے بال اس کے کان میں چلا گیا اور دوسرے کان سے نکلا۔ سلطان یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گیا۔
’’ کیوں‘‘ قصہ گو نے کہا ’’یہ گڑیا احمق جیسی ہے جو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتا ہے۔‘‘
اس سے پہلے کہ سلطان اسے روک پاتا، اس نے سلطان کی ٹھوری سے تیسرا بال توڑ لیا۔ پھر اس نے داڑھی کے بال کو تیسری گڑیا کے کان میں ڈالا۔ بال اندر چلا گیا۔ سلطان غور سے دیکھنے لگا کہ اس بار بال کہاں سے باہر آئےگا۔ بال گڑیا کے منھ سے باہر آیا۔ لیکن جب بال باہر آیا تو وہ کافی مڑا ہوا تھا۔
’’کیوں‘‘ قصہ گو نے کہا ’’یہ گڑیا قصہ گو کی طر ح ہے۔ وہ جو کچھ سنتا ہے اسے وہ تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ دوبارہ سنا دیتا ہے۔ پر قصہ گو کہانی میں تھوڑی سی تبدیلی اس لیے کرتا ہے کہ تاکہ وہ اس کا اپنا شہکار لگے‘‘
فارسی سے ترجمہ: حیدر شمسی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.