Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اڑنے والا کتا

معروف احمد چشتی

اڑنے والا کتا

معروف احمد چشتی

MORE BYمعروف احمد چشتی

    دریائے ستلج کے کنارے ایک گاؤں تھا (چک باوا) وہاں فرید نامی ایک لڑکا رہتا تھا۔ اس کی عمر پانچ سال تھی لیکن ابھی وہ اسکول نہیں جاتا تھا۔ اسکول کے گاؤں سے کافی دور تھا۔ اس لیے اس کا باپ اسے اسکول نہیں بھیجتا تھا۔ فرید ہر وقت اپنے باپ کے ساتھ ساتھ رہتا۔ کھیتوں میں کھیلتا اور درختوں پہ جھولا ڈال کر جھولے لیتا۔ اس کے پاس ایک سفید رنگ کا پیارا سا کٹورا تھا۔ کٹورے کا نام تھا جگنو۔ جگنو ہر وقت فرید کے ساتھ ساتھ رہتا تھا۔ فرید اس سے بہت پیار کرتا تھا۔

    فرید جب شیشم کے پیڑ پر جھولا ڈالے لمبے لمبے جھولے لیتا تو سوچتا کہ اگر وہ پرندوں کی طرح ہوا میں اڑ سکتا تو کتنا مزا آتا۔ یہ سوچ کر وہ اور زور لگا کر جھولا جھولنے لگتا کہ ہوا میں اڑنے کا مزا لے سکے۔ اسی وجہ سے اسے پرندے بھی بےحد پسند تھے۔

    ایک دن اس نے سوچا کہ اگر جگنو پرندوں کی طرح ہوا میں اڑے تو کتنا پیارا لگے۔ یہ سوچ کر فرید کو یوں لگا جیسے وہ خود ہواؤں میں اڑ رہا ہو۔ مگر جگنو ہوا میں کیسے اڑ سکتا تھا۔ کتے تیز بھاگ سکتے ہیں، اڑ نہیں سکتے ہیں۔

    ایک دن فرید انہی سوچوں میں گم کھیت کنارے بیٹھا تھا۔ اس کا باپ دھان کی فصل کو سپرے کر رہا تھا۔ سپرے بہت زہریلا ہوتا ہے اس لیے اس کے باپ نے اسے دور بٹھایا تھا۔ فرید جگنو کو گود میں لیے آسمان پر اڑتے پرندوں کو دیکھ رہا تھا۔ کبھی کبھی اس کو یوں محسوس ہوتا کہ آسمان پر اڑتے کوؤں، کبوتروں اور بگلوں میں کہیں اس کا کتا جگنو بھی اڑ رہا ہے۔ چانک اس نے دیکھا کہ دھان کے کھیت میں سے ایک بگلا ایک مینڈک کو اپنی چونچ میں دبائے اڑ گیا ہے۔ فرید کے دل میں فوراً خیال آیا کہ مینڈک کی طرح اس کا جگنو بھی بگلے کی چونچ کے سہارے اڑنے کا مزا لے سکتا ہے۔

    ’’لیکن اگر بگلے نے میرا جگنو واپس نہ کیا تو کیا کروں گا؟‘‘ فرید نے سوچا اور پیار سے جگنو کی کمر سہلانے لگا۔

    وہ کافی دن اس بات پر غور کرتا رہا۔ پھر اسے ایک حل سوجھا۔ ’’کیوں نہ میں ایک بگلا پال لوں جو میرے جگنو کو جھولے دے کر میرے پاس واپس لے آئےگا‘‘۔ فرید نے سوچا۔ اب وہ روزانہ بگلا پکڑنے کی ترکیبوں پر غور کرنے لگا۔ اسنے دھان کے کھیت کنارے پھندہ بنا کر لگا دیا۔ چڑیاں، مینائیں، کبوتر سارے اس پھندے میں پھنسے مگر بگلا نہ آیا۔ کچھ دن پھندہ لگا کر اس نے یہ ترکیب چھوڑ دی اور کوئی نئی ترکیب سوچنے لگا۔ ایک دن اس نے جھاڑیوں میں چھپ کے اپنے ہاتھوں سے بگلا پکڑنے کی کوشش کی مگر نہ پکڑا گیا۔ اسی طرح چھ ماہ گزر گئے۔

    چھ ماہ میں انسان زیادہ بڑا نہیں ہوتا مگر جانور کافی بڑے ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح جگنو بھی کافی بڑا ہو گیا تھا۔ جس دن فرید کو احساس ہوا کہ جگنو بڑا ہو گیا ہے، وہ اداس سا ہو گیا۔

    ’’جگنو اتنا بڑا ہو گیا ہے۔ اب تو بگلا بھی اسے جھولے نہیں دے سکےگا۔‘‘ فرید نے سوچا۔

    اس نے پھر سوچا ’’اتنے بڑے جگنو کو تو صرف گدھ ہی اٹھا سکتے ہیں۔ اب مجھے گدھ پالنا چاہئے‘‘۔

    گدھ ہوا میں بہت اونچا اڑتے ہیں۔ اس لیے آسانی سے یہ پکڑے نہیں جا سکتے۔ مگر فرید پھر بھی اسے پکڑنا چاہتا تھا۔ اس نے درختوں کے اوپر چڑھ کر گدھ تک پہچنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکا۔ اسی طرح مزید چھ ماہ گزر گئے۔ اب جگنو ایک سال کا ہوگیا تھا۔ ایک سال کا کتا بہت طاقت والا ہوتا ہے۔ جس دن فرید کو احساس ہوا کہ اب جگنو بڑا کتا بن چکا ہے اس دن اسے افسوس ہوا کیونکہ اب گدھ بھی اسےجھولے نہیں دے سکتا تھا۔

    اس نے اداس ہوکر سوچا ’’اب جگنو کو کون جھولے دےگا؟‘‘

    فرید ابھی اپنی سوچوں میں گم تھا کہ اسے گاؤں کے راستے پر مٹی اڑتی نظر آئی۔ سبز رنگ کی ایک کار دوڑتی نظر آ رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد وہی کار فرید کے گھر کے سامنے جاکر رکی۔ کارسے اس کا تایا زاد بھائی افضل نکلا۔ افضل دبئی میں رہتا تھا۔ آج وہ تین سال بعد پاکستان آیا تھا اور فرید کے لئے کافی سارے کھلونے لے کے آیا تھا۔ ان کھلونوں میں ایک بڑا سا ہوائی جہاز بھی تھا۔ اس ہوائی جہاز کو جب چابی بھر کر دوڑایا جاتا تو وہ ہوا میں اڑ جاتا تھا۔ پھر کچھ دیر ہوا میں چکر کاٹنے کے بعد خود ہی زمین پر اتر آتا تھا۔ فرید کو یہ جہاز بہت پسند آیا۔

    ایک دن اس کے دماغ میں ایک انوکھی ترکیب سوجھی۔ اس نے جہاز کے اندر جگنو کو بٹھا دیا اور جہاز کو اڑا دیا۔ جہاز ہوا میں اڑ رہا تھا اور فرید زمین پر اس کے نیچے خوشی سے کلکاریاں مارتے بھاگا پھر رہا تھا۔ آخرکار جگنو اڑ رہا تھا۔ جب جہاز نیچے اترا تو فرید نے دوڑ کر جگنو کو جہاز سے نکالا۔ جگنو خوشی سے اپنی دم تیز تیز ہلاتا فرید کی طرف دوڑا۔ یوں جیسے وہ بھی جہاز کی سیر سے بہت خوش ہو۔ آج فرید کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ اس کا پرانا خواب سچا ہو گیا تھا۔ اب وہ سوچ رہا تھا کہ اگر وہ خود بھی جہاز میں بیٹھ جائے تو کیا جہاز اسے بھی جھولے دے سکےگا۔

    مگر فرید نہیں جانتا تھا کہ یہ اتنی آسان بات نہیں تھی۔ جہاز میں بیٹھنے کے لئے انسان کو بہت ساری تعلیم حاصل کرنی پڑتی ہے۔ میرا خیال ہے فرید ایک دن تعلیم حاصل کر کے ضرور جہاز میں بیٹھےگا اور گاؤں کے بچوں کو بھی جہاز میں جھولے دےگا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے