اوپر یا نیچے
ایک شخص کہیں جا رہا تھا۔ راستے کی دونوں طرف اونچے گھنے پیڑ کھتے تھے۔ انہیں دیکھتے دیکھتے اسے اپنے بچپن کی یاد آگئی۔ ترنگ میں آکر وہ ایک اونچے پیڑ پر چڑھ گر بیٹھ گیا۔
بچپن کی یادیں تازہ ہوگئیں، کس طرح وہ اپنے دوستوں کے ساتھ پیڑوں پر چڑھتا، کچے پکے پھل توڑتا، سب مل کر پھل کھاتے، ہنسی مذاق کرتے۔
کافی وقت گزر گیا۔ اب جو اس نے نیچے اترنے کا قصد کیا تو یہ تلخ حقیقت اس پر آشکار ہوئی کہ پیڑ پر چڑھنا آسان ہے، نیچے اترنا بہت مشکل ہے۔
وہ گھبرا گیا۔ ہر طرح کوشش کر لی مگر کامیاب نہ ہوا۔ چھلانگ لگانے کی سوچی۔ نیچے دیکھا تو اوسان خطا ہوگئے۔ وہ کافی اونچائی پر تھا اور نیچے پکی سڑک تھی۔ ہراساں ہو کر اس نے مدد کے لئے چیخ و پکار شروع کر دی۔ کئی لوگ پیڑ کے نیچے جمع ہوگئے۔ مشورہ دینے لگے۔
’’اپنے سیدھے ہاتھ کی طرف کی شاخ پکڑ کر بدن کا وزن سنبھالو۔۔۔‘‘
’’دوسری ٹانگ کو مضبوطی سے نیچے والی ٹہنی پر جماؤ۔‘‘
’’دونوں پاؤں لٹکا کر بیٹھو۔۔۔ اور نیچے اترنے کی کوشش کرو۔۔۔‘‘
’’ہمت نہ ہارو۔۔۔ حوصلہ رکھو۔۔۔‘‘
’’زمین کی طرف نہ دیکھو۔۔۔ نیچے اترنے کا ارادہ کرو اور۔۔۔‘‘
ہر مشورہ ناکام ہو رہا تھا۔۔۔ درخت پر پھنسا شخص ہمت ہار رہا تھا کہ اچانک بھیڑ میں سے ملا نصرالدین باہر آئے۔ منہ پر دونوں ہاتھوں کا بھونپو بنا کر چلائے: ’’حوصلہ کرو بھائی! تمہیں نیچے اتارنے کی ایک ترکیب میرے پاس ہے۔۔۔‘‘
’’ارے تو جلدی اتاریے نا۔۔۔‘‘ وہ اوپر سے چیخ کر بولا : ’’دیر کیوں کر رہے ہیں؟‘‘
ملا نصرالدین بولے: ’’رسی، ایک مضبوط رسی ملے گی؟‘‘
’’وہ ادھر میرا مکان ہے۔‘’ ایک آدمی بولا: ’’میں ابھی رسی لاتا ہوں‘‘ وہ دوڑ کر گیا۔ رسی لے کر آیا۔ ملا نصرالدین نے رسی کے ایک سرے کو گول کر کے اوپر پھینکا اور زور سے بولے: ’’رسی پکڑو۔‘‘
اوپر بیٹھے شخص نے رسی پکڑ لی۔ توازن بگڑنے کا خدشہ تھا مگر جان کے خوف نے یہ کام اس سے کروا ہی لیا۔
’’اب رسی کو اپنی کمر سے باندھ لو۔‘‘ ملا نصر الدین نے ہدایت دی۔ رسی کمر کے گرد باندھ لی گئی۔ ملا نے رسی کا دوسرا سرا پکڑ کر دوسری ہدایت دی۔ ’’بدن ڈھیلا چھوڑ دو۔‘‘
کئی لوگ آگے آئے، بولے: ’’کیا کرنا ہے ہمیں بتاؤ مدد کریں گے ہم۔‘‘
’’میں تنہا کافی ہوں، آپ بس دیکھتے رہیں۔ یہ دیکھیے میں نے رسی کو جھٹکادیا۔ رسی کھینچی، زور سے کھینچی اور بھائی آگئے نیچے۔‘‘
درخت پر لٹکا شخص دھڑام سے نیچے آگرا۔ گرتے ہی بے ہوش ہوگیا۔ لوگ دوڑے، اسے سنبھالا، چہرے پر ہوا کرنے لگے۔ جس کا گھر نزدیک تھا وہ پانی لے آیا۔ منہ پر چھینٹے دیے گئے۔ اس نے آنکھیں کھولیں۔
دوسری طرف چار پانچ لوگوں نے ملا کو پکڑا۔ ان کا گریبان کھینچ کر انہیں بے بھاؤ کی سنانے لگے:
’’یہ کوئی طریقہ ہے مدد کرنے کا‘‘ ایک نے غصہ سے کہا۔
’’آپ احمق ہیں۔۔۔ انسان کو نیچے اتارنا تھا، آپ نے بوری کی طرح کھینچ لیا۔‘‘
’’جس طرح آپ اپنے گدھے کو کھینچتے ہیں اس طرح اس بے چارے کو کھینچا، مر جاتا تو؟‘‘ تیسرے نے کہا۔
’’مرا تو نہیں نا، آپ لوگ کیوں میرے پیچھے پڑ گئے۔ میں نے تو اس کی مدد کی ہے۔ ملا نصرالدین ناراض ہوگئے۔
بے ہوش شخص کو ہوش آگیا۔ اٹھ کر لنگڑاتا ہوا ملا پر جھپٹا:
’’یہ کون سا طریقہ تھا نیچے اتارنے کا؟ کود تو میں بھی سکتا تھا۔‘‘
’’تو کود کیوں نہیں گئے؟‘‘ ملا نے اطمینان سے کہا: ’’کیا میرا انتظار کر رہے تھے۔‘‘ وہ شخص لاجوا ہوگیا۔
’’نیکی کا زمانہ نہیں‘‘ ملا نے تماشائیوں کی طرف دیکھ کر کہا:
’’میرا ارادہ نیک تھا، میں واقعی بھائی کی مدد کرنا چاہتا تھا۔ آپ یقین کریں میں اسی ترکیب سے پہلے بھی ایک شخص کی جان بچا چکا ہوں۔‘‘
کیا آپ سچ کہہ رہے ہیں؟ کسی نے سوال کیا۔
’’مجھے جھوٹ بولنے کی عادت نہیں۔ سو فیصدی سچ کہہ رہا ہوں۔۔۔ اس شخص کی جان خطرہ میں تھی۔ میں نے رسی منگوائی، اس کی کمر میں بندھوائی اور کھینچ لیا۔۔۔ لیکن لیکن۔۔۔‘‘ انہوں نےجملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
’’کیا لیکن۔۔۔؟‘‘
’’لیکن مجھے یاد نہیں آرہا ہے۔۔۔‘‘ ملا سر کھجاتے ہوئے بولے۔
’’کیا یاد نہیں آرہا ہے؟‘‘
’’وہ ۔۔۔ وہ۔۔۔‘‘ ملا کے حلق میں الفاظ اٹک گئے۔
ارے تو جلدی بولیے نا۔۔۔ کیا یاد نہیں آرہا ہے۔ خواہ مخواہ بات کو طول دیے جارہے ہو‘‘ ایک پہلوان قسم کے جوان نے آگے آکر ڈانٹ لگائی۔
’’بولتا ہوں بابا بولتا ہوں‘‘ ملا نصرالدین آنکھیں نچا کر بولے:
’’مجھے یہ یاد نہیں آرہا ہے کہ میں نے اسے پیڑ سے نیچے کھینچا تھا یا کنویں میں سے اوپر نکالا تھا۔‘‘
تماش بینوں کے منہ حیرت سے کھلے کے کھلے رہ گئے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.