آنس معین
غزل 12
نظم 2
اشعار 31
انجام کو پہنچوں گا میں انجام سے پہلے
خود میری کہانی بھی سنائے گا کوئی اور
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
وہ جو پیاسا لگتا تھا سیلاب زدہ تھا
پانی پانی کہتے کہتے ڈوب گیا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
اک ڈوبتی دھڑکن کی صدا لوگ نہ سن لیں
کچھ دیر کو بجنے دو یہ شہنائی ذرا اور
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
تصویری شاعری 11
وہ میرے حال پہ رویا بھی مسکرایا بھی عجیب شخص ہے اپنا بھی ہے پرایا بھی یہ انتظار سحر کا تھا یا تمہارا تھا دیا جلایا بھی میں نے دیا بجھایا بھی میں چاہتا ہوں ٹھہر جائے چشم_دریا میں لرزتا عکس تمہارا بھی میرا سایا بھی بہت مہین تھا پردہ لرزتی آنکھوں کا مجھے دکھایا بھی تو نے مجھے چھپایا بھی بیاض بھر بھی گئی اور پھر بھی سادہ ہے تمہارے نام کو لکھا بھی اور مٹایا بھی
ہو جائے_گی جب تم سے شناسائی ذرا اور بڑھ جائے_گی شاید مری تنہائی ذرا اور کیوں کھل گئے لوگوں پہ مری ذات کے اسرار اے کاش کہ ہوتی مری گہرائی ذرا اور پھر ہاتھ پہ زخموں کے نشاں گن نہ سکو_گے یہ الجھی ہوئی ڈور جو سلجھائی ذرا اور تردید تو کر سکتا تھا پھیلے_گی مگر بات اس طور بھی ہوگی تری رسوائی ذرا اور کیوں ترک_تعلق بھی کیا لوٹ بھی آیا؟ اچھا تھا کہ ہوتا جو وہ ہرجائی ذرا اور ہے دیپ تری یاد کا روشن ابھی دل میں یہ خوف ہے لیکن جو ہوا آئی ذرا اور لڑنا وہیں دشمن سے جہاں گھیر سکو تم جیتو_گے تبھی ہوگی جو پسپائی ذرا اور بڑھ جائیں_گے کچھ اور لہو بیچنے والے ہو جائے اگر شہر میں مہنگائی ذرا اور اک ڈوبتی دھڑکن کی صدا لوگ نہ سن لیں کچھ دیر کو بجنے دو یہ شہنائی ذرا اور
ہو جائے_گی جب تم سے شناسائی ذرا اور بڑھ جائے_گی شاید مری تنہائی ذرا اور کیوں کھل گئے لوگوں پہ مری ذات کے اسرار اے کاش کہ ہوتی مری گہرائی ذرا اور پھر ہاتھ پہ زخموں کے نشاں گن نہ سکو_گے یہ الجھی ہوئی ڈور جو سلجھائی ذرا اور تردید تو کر سکتا تھا پھیلے_گی مگر بات اس طور بھی ہوگی تری رسوائی ذرا اور کیوں ترک_تعلق بھی کیا لوٹ بھی آیا؟ اچھا تھا کہ ہوتا جو وہ ہرجائی ذرا اور ہے دیپ تری یاد کا روشن ابھی دل میں یہ خوف ہے لیکن جو ہوا آئی ذرا اور لڑنا وہیں دشمن سے جہاں گھیر سکو تم جیتو_گے تبھی ہوگی جو پسپائی ذرا اور بڑھ جائیں_گے کچھ اور لہو بیچنے والے ہو جائے اگر شہر میں مہنگائی ذرا اور اک ڈوبتی دھڑکن کی صدا لوگ نہ سن لیں کچھ دیر کو بجنے دو یہ شہنائی ذرا اور
وہ کچھ گہری سوچ میں ایسے ڈوب گیا ہے بیٹھے بیٹھے ندی کنارے ڈوب گیا ہے آج کی رات نہ جانے کتنی لمبی ہوگی آج کا سورج شام سے پہلے ڈوب گیا ہے وہ جو پیاسا لگتا تھا سیلاب_زدہ تھا پانی پانی کہتے کہتے ڈوب گیا ہے میرے اپنے اندر ایک بھنور تھا جس میں میرا سب کچھ ساتھ ہی میرے ڈوب گیا ہے شور تو یوں اٹھا تھا جیسے اک طوفاں ہو سناٹے میں جانے کیسے ڈوب گیا ہے آخری خواہش پوری کر کے جینا کیسا آنسؔ بھی ساحل تک آ کے ڈوب گیا ہے