پلو مشرا کے اشعار
میں ایک خانہ بدوش ہوں جس کا گھر ہے دنیا
سو اپنے کاندھے پہ لے کے یہ گھر بھٹک رہا ہوں
میں اپنی موت سے خلوت میں ملنا چاہتا ہوں
سو میری ناؤ میں بس میں ہوں ناخدا نہیں ہے
مکین دل کو خانماں خراب سے عشق تھا
قیام ڈھونڈھتا رہا تمہاری چھت کے بعد بھی
میں تجھ سے ملنے سمے سے پہلے پہنچ گیا تھا
سو تیرے گھر کے قریب آ کر بھٹک رہا ہوں
وہ نشہ ہے کے زباں عقل سے کرتی ہے فریب
تو مری بات کے مفہوم پہ جاتا ہے کہاں
تمام فرق محبت میں ایک بات کے ہیں
وہ اپنی ذات کا نئیں ہے ہم اس کی ذات کے ہیں
یہ طے ہوا تھا کہ خوب روئیں گے جب ملیں گے
اب اس کے شانے پہ سر ہے تو ہنستے جا رہے ہیں
یہ جسم تنگ ہے سینے میں بھی لہو کم ہے
دل اب وہ پھول ہے جس میں کہ رنگ و بو کم ہے
آنسوؤں میں مرے کاندھے کو ڈبونے والے
پوچھ تو لے کہ مرے جسم کا صحرا ہے کہاں
ہمارا کام تو موسم کا دھیان کرنا ہے
اور اس کے بعد کے سب کام شش جہات کے ہیں
ترے لبوں میں مرے یار ذائقہ نہیں ہے
ہزار بوسے ہیں ان پر پہ اک دعا نہیں ہے