آج ویرانیوں میں مرا دل نیا سلسلہ چاہتا ہے
آج ویرانیوں میں مرا دل نیا سلسلہ چاہتا ہے
شام ڈھلنے کو ہے زندگی کی خدا اور کیا چاہتا ہے
دھوپ کی نیتوں میں بھڑکنے لگے نفرتوں کے الاؤ
اے گھٹا اس لیے تجھ کو میرا بدن اوڑھنا چاہتا ہے
نیند کی راحتوں سے نہیں مطمئن سلسلہ دھڑکنوں کا
پھر دل زار رعنائیوں میں گندھا رتجگا چاہتا ہے
تیری نزدیکیوں کو پہن کے میں شہزادہ لگنے لگا ہوں
چھو کے رنگینیاں اب کے دیکھوں تری، جی بڑا چاہتا ہے
پرورش حوصلوں کی تمام عمر میرے لہو نے خموشی سے کی
اب جنوں عکس کو دیکھنے کے لیے آئینہ چاہتا ہے
جو ہتھیلی کی ساری پرانی لکیروں کو تبدیل کر دے
ایسا خوش رنگ ہر آدمی اب یہاں سانحہ چاہتا ہے
تم سمندر کے سہمے ہوئے جوش کو میرا پیغام دینا
موسم حبس میں پھر کوئی آج تازہ ہوا چاہتا ہے
عمر بھر آنسوؤں سے جو دھوتا رہا چہرہ محرومیوں کا
وہ تری رحمتوں سے مرے مولا اب کے جزا چاہتا ہے
ناز تھا جس کو میری رفاقت کے ہر لمحۂ مختصر پر
آج محسوس ایسا ہوا ہے کہ وہ فاصلہ چاہتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.