اب سوچتا ہوں عمر دو روزہ سے کیا ملا
اب سوچتا ہوں عمر دو روزہ سے کیا ملا
دنیا کو کیا دیا مجھے دنیا سے کیا ملا
جو کم نگاہ تھے وہی اہل نظر بنے
ہم کو ہمارے دیدۂ بینا سے کیا ملا
دل کو دئے ہیں ذوق تمنا نے سو فریب
دل کو مگر فریب تمنا سے کیا ملا
عرفان شوق جوش جنوں ذوق بندگی
ان کی طلب تھی اور مجھے کیا سے کیا ملا
دل ہے کہ رنگ و بو کے تلاطم میں غرق ہے
میں کیا کہوں کہ اس گل رعنا سے کیا ملا
وہ مطمئن ہیں عہد رفاقت کو توڑ کر
ہم منفعل کہ وعدۂ فردا سے کیا ملا
دامن میں آج خار ہیں چھالے ہیں پاؤں میں
گلشن سے کیا ملا مجھے صحرا سے کیا ملا
میرے سرور شوق نے بے خود کیا مجھے
ورنہ خمار بادۂ صہبا سے کیا ملا
تاب نظر نہیں سہی ذوق نظر تو ہے
دل کو خبر سے سعیٔ تماشا سے کیا ملا
کیا شام آرزو سے مبارکؔ کریں امیدؔ
ہم کو ہماری صبح تمنا سے کیا ملا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.