بند دریچوں کے کمرے سے پروا یوں ٹکرائی ہے
بند دریچوں کے کمرے سے پروا یوں ٹکرائی ہے
جیسے دل کے آنگن میں دکھیا نے تان لگائی ہے
پیڑوں کی خاموشی سے بھی دل میرا گھبراتا ہے
صحرا کی ویرانی دیکھ کے آنکھ مری بھر آئی ہے
دل کے صحرا میں یادوں کے جھکڑ ایسے چلتے ہیں
جیسے نین جھروکا بھی اس پریتم کی انگنائی ہے
اپنے دل میں یادوں نے زخموں کے پھول کھلائے ہیں
جسم کی اس دیوار کے اندر کس نے نقب لگائی ہے
پتا پتا شاخ سے ٹوٹے دروازوں پہ وحشت سی
یارو پریم کتھا میں کس نے درد کی تان ملائی ہے
دریا دریا ناؤ بہے تو گوری گیت پروتی جائے
ان گیتوں کی تان امر ہے جن کا رنگ جدائی ہے
پنچھی کی چہکار ہمیشہ جنگل کو گرماتی ہے
خلق خدا نے اپنے دل میں بس یہی یاد بسائی ہے
قدم قدم دکھ درد کے سائے شہر ہوئے ویرانے بھی
کس نے دیس کے پھولوں پر اب ہجر کی راکھ اڑائی ہے
- کتاب : naquush (Pg. 294)
- اشاعت : 1979
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.