بسان چوب و نقارا ہیں خار و آبلہ پائی
بسان چوب و نقارا ہیں خار و آبلہ پائی
بہ وادیٔ جنوں انگیز نوبت خانہ رکھتے ہیں
تشریح
اردو کے شعرا نے ہندوستانی موسیقی کی اصطلاحات کو بطورِ تلازمہ استعمال کرکے ایسے ایسے نادر مضامین پیدا کیے ہیں کہ عقل حیران ہوجاتی ہے۔ ایک خاص بات جسے طلبا کے لئے جاننا ضروری ہے وہ یہ کہ ہمارے کلاسیکی شعرا فنِ شعر کے علاوہ دوسرے فنون میں بھی درک رکھتے تھے۔ یہ سلسلہ آگے بھی بڑھا اور شاعروں نے جگہ جگہ پر موسیقی کی اصطلاحات کو استعمال کرکے اچھے مضامین پیدا کیے۔ وامق جونپوری کاشعر ہے؎
صنم تراش گرسنہ ہے ان دنوں شاید
کہ ہر مجسمہ لاغر دکھائی دیتا ہے
شعر نازک خیالی کی عمدہ مثال ہونے کے علاوہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ہمارے شعرا نے بت، بتخانہ یا صنم کی مناسبت سے کفر، کافر، دیر، حرم ، کعبہ برہمن وغیرہ کے تلازمات ہی نہیں برتے ہیں بلکہ وہ تلازمے بھی استعمال کیے ہیں جس سے بت کا پیکر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے ۔ اب میرؔ صاحب کا یہ شعر دیکھیں؎
دلّی کے نہ تھے کوچے اوراقِ مصور تھے
جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی
گویا میرؔ مصور کے تخلیقی عمل کے لوازمات سے واقف تھے۔ ہمارے نمائندہ معاصر احمد مشتاق نے تو غضب ہی کردیا؎
کوئی تصویر مکمل نہیں ہونے پاتی
دھوپ دیتے ہیں تو سایا نہیں رہنے دیتے
یعنی احمد مشتاق مصوری کے عمل سے پوری طرح سے واقف ہیں۔ انہیں کینواس پر بنائی گئی تصویر کے لئے دھوپ اور سائے کے توازن کا علم ہے۔ قصہ کوتاہ وہ جو ہمارے جوش صاحب نے انسان کی تعریف میں کہا ہے وہ ہمارے شعرا پر صادق آتا ہے:
شاعرومطرب و بت سازومصور ہے انسان
بہر حال زیرِ بحث شعر کی طرف لوٹتے ہیں۔ پہلے لغات پر غور کرتے ہیں:
بسان یعنی مانند۔ چوب یعنی لکڑی۔ نقارہ یعنی ڈھول، نوبت یعنی باری، دفعہ، مہلت، حالت، کیفیت، درجہ۔ نوبت آنا یعنی کام کا وقت آنا، نوبت بجنا یعنی شادیانہ بجنا۔ عام طور پر کہتے ہیں کہ نوبت یہاں تک پہنچی یعنی حالت یہ ہوئی۔ نوبت کے کئی تاریخی ، سماجی، ثقافتی اور تمدنی حوالے ہیں جن کی تفصیل اس وقت موجبِ طوالت ہوگی۔ موسیقی کی رو سے نوبت سات فنکاروں اور دو اہلکاروں پر مشتمل ٹولے کو کہتے ہیں۔ تفصیل یوں ہے: دو شہنائی نواز، دو نقارچی، ایک کرنا چی، ایک دمامہ بجانے والا، ایک باری دار اور ایک جمعدار۔ موخرالذکر دو اہلکاروں سے ان حوالوں کی طرف دھیان جاتا ہے جن کا اوپر ذکر ہوا ہے۔ بس یہاں اس قدر کہنا بہت ہے کہ باری دار اور جمعدار سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ نوبت کی حیثیت کسی زمانے میں سرکاری رہی ہوگی۔ نقار خانہ کے بارے میں ہمارے لغات میں صحیح معلومات درج نہیں۔ مثلاً فیروزلغات کے مطابق نقار خانہ وہ مکان ہے جہاں نوبت بجے۔ بلکہ اس کے مطابق نقار خانہ کو توپ خانہ بھی کہتے ہیں۔ دراصل نوبت خانہ اس مکان کو کہتے تھے جہاں مذکورہ نو افراد ملازم کی حیثیت سے رہائش پذیر ہوتے تھے۔ چونکہ انہیں نئی طرزیں بنانی ہوتی تھیں اور پرانی طرزوں پر ریاض کرنا ہوتا تھا اس لئے ان کا ایک جگہ اکٹھا ہونا لازمی تھا۔ ان کے الگ الگ رہنے سے ایک بڑی دقت یہ بھی تھی کہ انہیں فوری طور پر یکجا نہیں کیا جاسکتا۔ بس یوں سمجھیے کہ میرے خیال میں جس طرح پولیس اور فوج کا بینڈ ایک جگہ رہتا ہے اسی طرح نوبت سے وابستہ افراد کے لئے بھی ایک مکان مختص ہوا کرتا تھا۔ میرا خیال غلط بھی ہوسکتا ہے۔ مگر اس تفصیل سے وادیٔ جنوں انگیز اور نوبت خانہ کے بیچ معنوی انسلاک کو سمجھا جاسکتا ہے۔
عام طور پر جب ہم چوب کا لفظ سنتے یا پڑھتے ہیں تو ہمارے تخیل میں کئی صورتیں ابھرتی ہیں۔ یہ صورتیں شکل و ہیت اور مزاج میں مختلف ہوتی ہیں اس لئے مختلف لوگوں میں مختلف حواس متحرک ہوجاتے ہیں۔ مثلاً عصا، ڈنڈا، جلانے کی لکڑی ہمارے اندر الگ الگ کیفیت کو جنم دیتے ہیں۔ جب ہم چوب و نقارہ پر غور کرتے ہیں تو پہلے ہمارے ذہن میں ایک خوبصورت چھڑی کی تصویر ابھرتی ہے جس کی ضرب سے ڈھول بجتا ہے۔ چونکہ یہ ضرب ڈھول پر منڈھے پوست یعنی کھال پر پڑتی ہے لہٰذا اس کھال کی نرمی سے چوب ہمیں ایک لطیف چیز نظر آتی ہے جس کی حرکتیں بدلتی رہتی ہیں۔ دھیمی آواز کے لئے ہلکی ضرب، اونچی آواز کے لئے زوردار ضرب اور کھڑکھڑاہٹ کے لئے سریع الحرکت ضربیں (Allegro)۔خود ضرب کا لفظ ہمارے اندر چوٹ کا احساس پیدا کرتا ہے مگر ڈھول پر پڑنے والی ضرب جو تھاپ کہلاتی ہے نہایت مہارت اور قاعدے سے ڈھول پر ماری جاتی ہے اس لیے یہ تاثر فوراً دور ہوجاتا ہے۔ چوب کا مقصد تھاپ ہوتا ہے نہ کہ کھال کو پھاڑ نا۔ یہ تفصیل اس لئے ضروری تھی کہ چوب اور نقارے نیز خار اور آبلہ کے بیچ ربط کی رمزیت کو سمجھا جاسکے۔ اگرچہ کھال کا ذکر شعر میں موجود نہیں تاہم ایک تربیت یافتہ شعر فہم کو یہ نکتہ سمجھ میں آسکتا ہے۔ سوداؔ نے قصیدے کے ایک شعر میں پوست یعنی کھال سے کیا خوب مضمون پیدا کیا ہے؎
سامنے بُز کے یہ کیا دخل کہ نکلے آواز
گُرگ کی پوست کو منڈھواکے بجائیں جو دہل
دو نازک پہلوؤں کی نشاندہی ضروری ہے۔ایک یہ کہ جب چوب نقارے کی پوست پر پڑتی ہے تو اس سے جو آواز نکلتی ہے اسے ٹکور کہتے ہیں۔ حالانکہ اس کا شعر میں کہیں مذکور نہیں مگر اس پہلو سے دیکھنے میں کوئی قباحت نہیں بلکہ لطافت کی ایک صورت دکھائی دیتی ہے۔ اور اس سے شعر کے بنیادی مفہوم پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ٹکور کہتے ہیں گرم ریت کی پوٹلی سے چوٹ کو سینکنے کے عمل کو۔ یعنی ضرب کا ایک حاصل ٹکور بھی ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ چوب کے بارے میں ’’عمید‘‘ میں یوں درج ہے:’’ قسمت سفت و سخت زیر پوست درخت کہ در صنعت و ساختن اشیای چوبی بہ کار می رود۔‘‘ یعنی چوب درخت کی پوست کے نیچے ہوتی ہے اور پوست اتار کے ہی اسے برآمد کیا جاتا ہے۔ درخت سے پوست اتارنے اور آبلے کے پھوٹنے میں جو ربطِ بعید ہے اس پر بھی غور کیا جاسکتا ہے۔ اور جب آبلہ پھوٹا تو وہاں پر زخم نے منہ کھولا ۔ اس میں جو درد اور ٹیس اٹھتی ہےاس پر ٹکور کرنے سے راحت ہی نہیں ملتی بلکہ زخم مندمل بھی ہوجاتا ہے ۔
اب آئیے شعر کے مفہوم پر غور کرتے ہیں۔ شعری کردار کادعویٰ ہے کہ وہ وادیٔ جنوں انگیز میں نوبت خانہ ساتھ رکھتا ہے۔ جس کی دلیل وہ یہ کہہ کر پیش کرتا ہے کہ اس دشت میں کانٹوں اور پاؤں کے چھالوں کی مثال ڈھول اور چوب کی ہے۔ مفہوم میں دو صورتیں ہیں۔ پہلے یہ بات دھیان میں رکھی جائے کہ وادیٔ جنوں کے بجائے شاعر نے وادیٔ جنوں انگیز کی ترکیب استعمال کی ہے۔ یعنی وہ وادی جس میں جنوں انگیز ہوتا ہے یعنی بھڑکتا ہے۔ گویا جنوں تو پہلے سے ہی ہے مگر کسی عمل سے وہ جنوں بھڑکتا ہے۔ وہ عمل کیا ہے؟ وہ عمل ہے خار و آبلہ کا تفاعل اور نوبت خانے کا ہونا۔ میرؔ کا ایک شعر یاد آیا؎
گئی وہ نوبتِ مجنوں کہ نام باجے تھا
ہمارا شورِ جنوں ہے اب اپنی باری پر
شعر کے مفہوم میں تین امکانی صورتیں ہیں۔ایک صورت یہ ہے کہ کانٹے پاؤں کے آبلوں میں چبھتے رہتے ہیں۔ جسم کی کوئی جگہ جب سخت محنت اور مشقت سے گھستی ہے تو اس جگہ کھال میں پانی بھرجاتا ہے جس سے کھال ابھر جاتی ہے اور پھپھولا بن جاتا ہے۔ آبلہ میں جب کانٹا چبھتا ہے تو کھال کٹ جاتی ہے اور پانی بہہ کر باہر آجاتا ہے۔ یہ ایک اذیت ناک صورتحال ہے۔ لیکن وادیٔ جنوں کا مسافر اذیتوں کو اپنے واسطے مسرت تصور کرتا ہے لہٰذا اس مناسبت سے نوبت بجنے یعنی شادیانہ بجنے کا جواز نکلتا ہے۔دوسری صورت یہ ہے کہ جب آبلہ پڑا تو کانٹوں نے ضرب مار کر اس پر ٹکور کیا۔ ٹکور کے لئے گرم ریت کا ہونا ضروری ہے۔ چوب جب نقارے پر مسلسل پڑتی ہے تو اس کا وہ حصّہ گرم ہوجاتا ہے جو پوست پر پڑتا ہے۔ اس اعتبار سے گویا کانٹا اس جگہ ٹکور کرتا ہے جہاں آبلہ پڑا ہے۔ تیسری یہ کہ آبلہ ڈھول کے مثل ہے جسے کانٹا چوب کی طرح ضرب سے بجاتا ہے۔ کمال یہ ہے کہ تینوں صورتیں قابلِ قبول ہیں۔ جس کا سبب استعارے کا معقول استعمال ہے جس نے معنوی جہت کو اکہرا رہنے نہیں دیا ۔ شعر میں جو چوب و نقارہ اور آبلہ پائی میں مشابہت ہے وہ جذباتی استعارہ میں بدل جاتی ہے۔ شعر کی مجموعیت میں معنوی استعارہ بھی موجود ہے۔ چنانچہ تینوں صورتوں سے جو تضاد پیدا ہوا ہے وہ جذبات کی ایک ہی طرح کی مرئی کیفیت ظاہر کرتی ہے۔
شفق سوپوری
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.