Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Shah Naseer's Photo'

شاہ نصیر

1756 - 1838 | دلی, انڈیا

اٹھارہویں صدی کے ممتاز ترین شاعروں میں نمایاں

اٹھارہویں صدی کے ممتاز ترین شاعروں میں نمایاں

شاہ نصیر کے اشعار

2.7K
Favorite

باعتبار

مشکل ہے روک آہ دل داغ دار کی

کہتے ہیں سو سنار کی اور اک لہار کی

کعبے سے غرض اس کو نہ بت خانے سے مطلب

عاشق جو ترا ہے نہ ادھر کا نہ ادھر کا

غرور حسن نہ کر جذبۂ زلیخا دیکھ

کیا ہے عشق نے یوسف غلام عاشق کا

کم نہیں ہے افسر شاہی سے کچھ تاج گدا

گر نہیں باور تجھے منعم تو دونوں تول تاج

ملا کی دوڑ جیسے ہے مسجد تلک نصیرؔ

ہے مست کی بھی خانۂ خمار تک پہنچ

لگا نہ دل کو تو اپنے کسی سے دیکھ نصیرؔ

برا نہ مان کہ اس میں نہیں بھلا دل کا

مے کشی کا ہے یہ شوق اس کو کہ آئینے میں

کان کے جھمکے کو انگور کا خوشا سمجھا

یہ ابر ہے یا فیل سیہ مست ہے ساقی

بجلی کے جو ہے پاؤں میں زنجیر ہوا پر

کی ہے استاد ازل نے یہ رباعی موزوں

چار عنصر سے کھلے معنیٔ پنہاں ہم کو

خیال ناف بتاں سے ہو کیوں کہ دل جاں بر

نکلتے کوئی بھنور سے نہ ڈوبتا دیکھا

میں اس کی چشم کا بیمار ناتواں ہوں طبیب

جو میرے حق میں مناسب ہو وہ دوا ٹھہرا

آنکھوں سے تجھ کو یاد میں کرتا ہوں روز و شب

بے دید مجھ سے کس لیے بیگانہ ہو گیا

دیکھو گے کہ میں کیسا پھر شور مچاتا ہوں

تم اب کے نمک میرے زخموں پہ چھڑک دیکھو

خیال زلف دوتا میں نصیرؔ پیٹا کر

گیا ہے سانپ نکل تو لکیر پیٹا کر

رکھ قدم ہشیار ہو کر عشق کی منزل میں آہ

جو ہوا اس راہ میں غافل ٹھکانے لگ گیا

اے خال رخ یار تجھے ٹھیک بناتا

جا چھوڑ دیا حافظ قرآن سمجھ کر

عشق ہی دونوں طرف جلوۂ دلدار ہوا

ورنہ اس ہیر کا رانجھے کو رجھانا کیا تھا

بوسۂ خال لب جاناں کی کیفیت نہ پوچھ

نشۂ مے سے زیادہ نشۂ افیوں ہوا

کیوں مے کے پینے سے کروں انکار ناصحا

زاہد نہیں ولی نہیں کچھ پارسا نہیں

پستاں کو تیرے دیکھ کے مٹ جائے پھر حباب

دریا میں تا بہ سینہ اگر تو نہائے صبح

شیخ صاحب کی نماز سحری کو ہے سلام

حسن نیت سے مصلے پہ وضو ٹوٹ گیا

ترے ہی نام کی سمرن ہے مجھ کو اور تسبیح

تو ہی ہے ورد ہر اک صبح و شام عاشق کا

نصیرؔ اس زلف کی یہ کج ادائی کوئی جاتی ہے

مثل مشہور ہے رسی جلی لیکن نہ بل نکلا

برقعہ کو الٹ مجھ سے جو کرتا ہے وہ باتیں

اب میں ہمہ تن گوش بنوں یا ہمہ تن چشم

کی ہے استاد ازل نے یہ رباعی موزوں

چار عنصر کے سوا اور ہے انسان میں کیا

سو بار بوسۂ لب شیریں وہ دے تو لوں

کھانے سے دل مرا ابھی شکر نہیں پھرا

تشنگی خاک بجھے اشک کی طغیانی سے

عین برسات میں بگڑے ہے مزا پانی کا

اک آبلہ تھا سو بھی گیا خار غم سے پھٹ

تیری گرہ میں کیا دل اندوہ گیں رہا

نہ ہاتھ رکھ مرے سینے پہ دل نہیں اس میں

رکھا ہے آتش سوزاں کو داب کے گھر میں

جوں موج ہاتھ ماریے کیا بحر عشق میں

ساحل نصیرؔ دور ہے اور دم نہیں رہا

لگا جب عکس ابرو دیکھنے دل دار پانی میں

بہم ہر موج سے چلنے لگی تلوار پانی میں

جب کہ لے زلف تری مصحف رخ کا بوسہ

پھر یہاں فرق ہو ہندو و مسلمان میں کیا

لب دریا پہ دیکھ آ کر تماشا آج ہولی کا

بھنور کالے کے دف باجے ہے موج اے یار پانی میں

تیرے خیال ناف سے چکر میں کیا ہے دل

گرداب سے نکل کے شناور نہیں پھرا

مت پوچھ واردات شب ہجر اے نصیرؔ

میں کیا کہوں جو کار نمایان نالہ تھا

اسی مضمون سے معلوم اس کی سرد مہری ہے

مجھے نامہ جو اس نے کاغذ کشمیر پر لکھا

کوئی یہ شیخ سے پوچھے کہ بند کر آنکھیں

مراقبے میں بتا صبح و شام کیا دیکھا

ریختہ کے قصر کی بنیاد اٹھائی اے نصیرؔ

کام ہے ملک سخن میں صاحب مقدور کا

گلے میں تو نے وہاں موتیوں کا پہنا ہار

یہاں پہ اشک مسلسل گلے کا ہار رہا

بنا کر من کو منکا اور رگ تن کے تئیں رشتہ

اٹھا کر سنگ سے پھر ہم نے چکناچور کی تسبیح

دن رات یہاں پتلیوں کا ناچ رہے ہے

حیرت ہے کہ تو محو تماشا نہیں ہوتا

ہم وہ فلک ہیں اہل توکل کہ مثل ماہ

رکھتے نہیں ہیں نان شبینہ برائے صبح

لے گیا دے ایک بوسہ عقل و دین و دل وہ شوخ

کیا حساب اب کیجے کچھ اپنا ہی فاضل رہ گیا

لگائی کس بت مے نوش نے ہے تاک اس پر

سبو بہ دوش ہے ساقی جو آبلہ دل کا

آتا ہے تو آ وعدہ فراموش وگرنہ

ہر روز کا یہ لیت و لعل جائے تو اچھا

نہ کیوں کہ اشک مسلسل ہو رہنما دل کا

طریق عشق میں جاری ہے سلسلہ دل کا

جا بجا دشت میں خیمے ہیں بگولے کے کھڑے

عرس مجنوں کی ہے دھوم آج بیابان میں کیا

خدا گواہ ہے میں شغل بت پرستی میں

سوائے عشق کسی کام سے نہیں واقف

دیکھ تو یار بادہ کش میں نے بھی کام کیا کیا

دے کے کباب دل تجھے حق نمک ادا کیا

پوچھنے والوں کو کیا کہیے کہ دھوکے میں نہیں

کفر و اسلام حقیقت میں ہیں یکساں ہم کو

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے