Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Shah Naseer's Photo'

شاہ نصیر

1756 - 1838 | دلی, انڈیا

اٹھارہویں صدی کے ممتاز ترین شاعروں میں نمایاں

اٹھارہویں صدی کے ممتاز ترین شاعروں میں نمایاں

شاہ نصیر کے اشعار

2.8K
Favorite

باعتبار

صیاد کے جگر میں کرے تھا سناں کا کام

مرغ قفس کے سر پہ یہ احسان نالہ تھا

یہ نگل جائے گی اک دن تری چوڑائی چرخ

گر کبھو تجھ سے زمیں ہم نے بھی نپوائی چرخ

دے مجھ کو بھی اس دور میں ساقی سپر جام

ہر موج ہوا کھینچے ہے شمشیر ہوا پر

اک آبلہ تھا سو بھی گیا خار غم سے پھٹ

تیری گرہ میں کیا دل اندوہ گیں رہا

آتا ہے تو آ وعدہ فراموش وگرنہ

ہر روز کا یہ لیت و لعل جائے تو اچھا

رواق چشم میں مت رہ کہ ہے مکان نزول

ترے تو واسطے یہ قصر ہے بنا دل کا

کم نہیں ہے افسر شاہی سے کچھ تاج گدا

گر نہیں باور تجھے منعم تو دونوں تول تاج

اک پل میں جھڑی ابر تنک مایہ کی شیخی

دیکھا جو مرا دیدۂ پر آب نہ ٹھہرا

میں اس کی چشم کا بیمار ناتواں ہوں طبیب

جو میرے حق میں مناسب ہو وہ دوا ٹھہرا

میرے نالے کے نہ کیوں ہو چرخ اخضر زیر پا

خطبہ خوان عشق ہے رکھتا ہے منبر زیر پا

شوق کشتن ہے اسے ذوق شہادت ہے مجھے

یاں سے میں جاؤں گا واں سے وہ ستم گر آئے گا

لے گیا دے ایک بوسہ عقل و دین و دل وہ شوخ

کیا حساب اب کیجے کچھ اپنا ہی فاضل رہ گیا

تیرے خیال ناف سے چکر میں کیا ہے دل

گرداب سے نکل کے شناور نہیں پھرا

تشنگی خاک بجھے اشک کی طغیانی سے

عین برسات میں بگڑے ہے مزا پانی کا

چمن میں دیکھتے ہی پڑ گئی کچھ اوس غنچوں پر

ترے بستاں پہ عالم ہے عجب شبنم کے محرم کا

شیخ صاحب کی نماز سحری کو ہے سلام

حسن نیت سے مصلے پہ وضو ٹوٹ گیا

بسان آئنہ ہم نے تو چشم وا کر لی

جدھر نگاہ کی صاف اس کو برملا دیکھا

ریختہ کے قصر کی بنیاد اٹھائی اے نصیرؔ

کام ہے ملک سخن میں صاحب مقدور کا

ہو گفتگو ہماری اور اب اس کی کیونکہ آہ

اس کے دہاں نہیں تو ہماری زباں نہیں

آنکھوں سے تجھ کو یاد میں کرتا ہوں روز و شب

بے دید مجھ سے کس لیے بیگانہ ہو گیا

کیا دکھاتا ہے فلک گرم تو نان خورشید

کھانا کھاتے ہیں سدا اہل توکل ٹھنڈا

مشکل ہے روک آہ دل داغ دار کی

کہتے ہیں سو سنار کی اور اک لہار کی

سب پہ روشن ہے کہ راہ عشق میں مانند شمع

پاؤں پر سے ہم نے قرباں رفتہ رفتہ سر کیا

مت پوچھ واردات شب ہجر اے نصیرؔ

میں کیا کہوں جو کار نمایان نالہ تھا

سو بار بوسۂ لب شیریں وہ دے تو لوں

کھانے سے دل مرا ابھی شکر نہیں پھرا

کی ہے استاد ازل نے یہ رباعی موزوں

چار عنصر سے کھلے معنیٔ پنہاں ہم کو

غرض نہ فرقت میں کفر سے تھی نہ کام اسلام سے رہا تھا

خیال زلف بتاں ہی ہر دم ہمیں تو لیل و نہار آیا

شراب لاؤ کباب لاؤ ہمارے دل کو نہ اب گھٹاؤ

شروع دود قدح ہو جلدی کہ سر پہ ابر بہار آیا

بوسۂ خال لب جاناں کی کیفیت نہ پوچھ

نشۂ مے سے زیادہ نشۂ افیوں ہوا

بنا کر من کو منکا اور رگ تن کے تئیں رشتہ

اٹھا کر سنگ سے پھر ہم نے چکناچور کی تسبیح

نہ ہاتھ رکھ مرے سینے پہ دل نہیں اس میں

رکھا ہے آتش سوزاں کو داب کے گھر میں

کعبے سے غرض اس کو نہ بت خانے سے مطلب

عاشق جو ترا ہے نہ ادھر کا نہ ادھر کا

ترے ہی نام کی سمرن ہے مجھ کو اور تسبیح

تو ہی ہے ورد ہر اک صبح و شام عاشق کا

پوچھنے والوں کو کیا کہیے کہ دھوکے میں نہیں

کفر و اسلام حقیقت میں ہیں یکساں ہم کو

سپر رکھتا ہوں میں بھی آفتابی ساغر مے کی

مجھے اے ابر تیغ برق کو چمکا کے مت دھمکا

دن رات یہاں پتلیوں کا ناچ رہے ہے

حیرت ہے کہ تو محو تماشا نہیں ہوتا

متاع دل بہت ارزاں ہے کیوں نہیں لیتے

کہ ایک بوسے پہ سودا ہے اب تو آ ٹھہرا

تار نفس الجھ گیا میرے گلو میں آ کے جب

ناخن تیغ یار کو میں نے گرہ کشا کیا

سربلندی کو یہاں دل نے نہ چاہا منعم

ورنہ یہ خیمۂ افلاک پرانا کیا تھا

خیال ناف بتاں سے ہو کیوں کہ دل جاں بر

نکلتے کوئی بھنور سے نہ ڈوبتا دیکھا

سر زمین زلف میں کیا دل ٹھکانے لگ گیا

اک مسافر تھا سر منزل ٹھکانے لگ گیا

تار مژگاں پہ رواں یوں ہے مرا طفل سرشک

نٹ رسن پر چلے ہے جیسے کوئی رکھ کر پاؤں

تو تو اک پرچہ بھی واں سے نامہ بر لایا نہ آہ

زندگی کیوں کر ہو گر ہم دل کو پر جاویں نہیں

کی ہے استاد ازل نے یہ رباعی موزوں

چار عنصر کے سوا اور ہے انسان میں کیا

اسی مضمون سے معلوم اس کی سرد مہری ہے

مجھے نامہ جو اس نے کاغذ کشمیر پر لکھا

ملا کی دوڑ جیسے ہے مسجد تلک نصیرؔ

ہے مست کی بھی خانۂ خمار تک پہنچ

خدا گواہ ہے میں شغل بت پرستی میں

سوائے عشق کسی کام سے نہیں واقف

عشق ہی دونوں طرف جلوۂ دلدار ہوا

ورنہ اس ہیر کا رانجھے کو رجھانا کیا تھا

آ کے سلاسل اے جنوں کیوں نہ قدم لے بعد قیس

اس کا بھی ہم نے سلسلہ از سر نو بپا کیا

دیکھ تو یار بادہ کش میں نے بھی کام کیا کیا

دے کے کباب دل تجھے حق نمک ادا کیا

Recitation

بولیے