بجلی پر اشعار
آسمان میں کوندنے والی
بجلی کواس کی اپنی شدت، کرختگی اورتیزچمک کی صفات کی بنا پرکئی صورتوں میں استعاراتی سطح پراستعمال کیا گیا ہے ۔ بجلی کا کوندنا محبوب کا مسکرانا بھی ہے کہ اس میں بھی وہی چمک اورجلا دینےکی وہی شدت ہوتی ہے اوراس کی مشابہت ہجربھوگ رہےعاشق کے نالوں سے بھی ہے۔ شاعری میں بجلی کا مضمون کئی اورتلازمات کے ساتھ آیا ہے، اس میں آشیاں اورخرمن بنیادی تلازمے ہیں۔ بجلی کی کرداری صفت خرمن اورآشیانوں کوجلانا ہے۔ ان لفظیات سےقائم ہونے والا مضمون کسی ایک سطح پرٹھہرانہیں رہتا بلکہ اس کی تعبیراورتفہیم کی بے شمارسطحیں ہیں ۔
بجلی گرے گی صحن چمن میں کہاں کہاں
کس شاخ گلستاں پہ مرا آشیاں نہیں
قفس کی تیلیوں میں جانے کیا ترکیب رکھی ہے
کہ ہر بجلی قریب آشیاں معلوم ہوتی ہے
بجلی چمکی تو ابر رویا
یاد آ گئی کیا ہنسی کسی کی
-
موضوع : یاد
ڈرتا ہوں آسمان سے بجلی نہ گر پڑے
صیاد کی نگاہ سوئے آشیاں نہیں
اٹھا جو ابر دل کی امنگیں چمک اٹھیں
لہرائیں بجلیاں تو میں لہرا کے پی گیا
-
موضوع : ابر شاعری
لہو سے میں نے لکھا تھا جو کچھ دیوار زنداں پر
وہ بجلی بن کے چمکا دامن صبح گلستاں پر
فریب روشنی میں آنے والو میں نہ کہتا تھا
کہ بجلی آشیانے کی نگہباں ہو نہیں سکتی
برق نے میرا نشیمن نہ جلایا ہو کہیں
صحن گلشن میں اجالا ہے خدا خیر کرے
تڑپ جاتا ہوں جب بجلی چمکتی دیکھ لیتا ہوں
کہ اس سے ملتا جلتا سا کسی کا مسکرانا ہے
ادھر فلک کو ہے ضد بجلیاں گرانے کی
ادھر ہمیں بھی ہے دھن آشیاں بنانے کی
ضبط نالہ سے آج کام لیا
گرتی بجلی کو میں نے تھام لیا