Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

حسن پر اشعار

ہم حسن کو دیکھ سکتے

ہیں ،محسوس کرسکتے ہیں اس سے لطف اٹھا سکتے ہیں لیکن اس کا بیان آسان نہیں ۔ ہمارا یہ شعری انتخاب حسن دیکھ کر پیدا ہونے والے آپ کے احساسات کی تصویر گری ہے ۔ آپ دیکھیں گے کہ شاعروں نے کتنے اچھوتے اور نئے نئے ڈھنگ سے حسن اور اس کی مختلف صورتوں کو بیان کیا ۔ ہمارا یہ انتخاب آپ کو حسن کو ایک بڑے اور کشادہ کینوس پر دیکھنے کا اہل بھی بنائے گا ۔ آپ اسے پڑھئے اور حسن پرستوں میں عام کیجئے ۔

حسن اک دل ربا حکومت ہے

عشق اک قدرتی غلامی ہے

عبد الحمید عدم

ہم اتنی روشنی میں دیکھ بھی سکتے نہیں اس کو

سو اپنے آپ ہی اس چاند کو گہنائے رکھتے ہیں

ظفر اقبال

سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے

کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں

احمد فراز

وہ صبح کو اس ڈر سے نہیں بام پر آتا

نامہ نہ کوئی باندھ دے سورج کی کرن میں

منور خان غافل

اپنی ہی تیغ ادا سے آپ گھائل ہو گیا

چاند نے پانی میں دیکھا اور پاگل ہو گیا

منیر نیازی

حسیں تو اور ہیں لیکن کوئی کہاں تجھ سا

جو دل جلائے بہت پھر بھی دل ربا ہی لگے

بشیر بدر

وہ چاندنی میں پھرتے ہیں گھر گھر یہ شور ہے

نکلا ہے آفتاب شب ماہتاب میں

جلیل مانک پوری

حسن یہ ہے کہ دل ربا ہو تم

عیب یہ ہے کہ بے وفا ہو تم

جلیل مانک پوری

اب تو تیرے حسن کی ہر انجمن میں دھوم ہے

جس نے میرا حال دیکھا تیرا دیوانہ ہوا

جمیل یوسف

کسی کلی کسی گل میں کسی چمن میں نہیں

وہ رنگ ہے ہی نہیں جو ترے بدن میں نہیں

فرحت احساس

حسن ہر حال میں ہے حسن پراگندہ نقاب

کوئی پردہ ہے نہ چلمن یہ کوئی کیا جانے

عرش ملسیانی

ترے جمال کی تصویر کھینچ دوں لیکن

زباں میں آنکھ نہیں آنکھ میں زبان نہیں

جگر مراد آبادی

آپ کیا آئے کہ رخصت سب اندھیرے ہو گئے

اس قدر گھر میں کبھی بھی روشنی دیکھی نہ تھی

حکیم ناصر

مجھی کو پردۂ ہستی میں دے رہا ہے فریب

وہ حسن جس کو کیا جلوہ آفریں میں نے

اختر علی اختر

حسن آفت نہیں تو پھر کیا ہے

تو قیامت نہیں تو پھر کیا ہے

جلیل مانک پوری

اتنے حجابوں پر تو یہ عالم ہے حسن کا

کیا حال ہو جو دیکھ لیں پردہ اٹھا کے ہم

جگر مراد آبادی

جی چاہتا ہے صانع قدرت پہ ہوں نثار

بت کو بٹھا کے سامنے یاد خدا کروں

امانت لکھنوی

تمہاری آنکھوں کی توہین ہے ذرا سوچو

تمہارا چاہنے والا شراب پیتا ہے

منور رانا

ہر حقیقت ہے ایک حسن حفیظؔ

اور ہر حسن اک حقیقت ہے

حفیظ بنارسی

تم حسن کی خود اک دنیا ہو شاید یہ تمہیں معلوم نہیں

محفل میں تمہارے آنے سے ہر چیز پہ نور آ جاتا ہے

ساحر لدھیانوی

ہم عشق میں ہیں فرد تو تم حسن میں یکتا

ہم سا بھی نہیں ایک جو تم سا نہیں کوئی

لالہ مادھو رام جوہر

بڑا وسیع ہے اس کے جمال کا منظر

وہ آئینے میں تو بس مختصر سا رہتا ہے

فرحت احساس

آؤ حسن یار کی باتیں کریں

زلف کی رخسار کی باتیں کریں

چراغ حسن حسرت

تجھے کون جانتا تھا مری دوستی سے پہلے

ترا حسن کچھ نہیں تھا مری شاعری سے پہلے

کیف بھوپالی

حسن بھی کمبخت کب خالی ہے سوز عشق سے

شمع بھی تو رات بھر جلتی ہے پروانے کے ساتھ

بسمل سعیدی

حسن سے عرض شوق نہ کرنا حسن کو زک پہنچانا ہے

ہم نے عرض شوق نہ کر کے حسن کو زک پہنچائی ہے

جون ایلیا

نہ پوچھو حسن کی تعریف ہم سے

محبت جس سے ہو بس وہ حسیں ہے

عادل فاروقی

وہ تغافل شعار کیا جانے

عشق تو حسن کی ضرورت ہے

خورشید ربانی

پھول گل شمس و قمر سارے ہی تھے

پر ہمیں ان میں تمہیں بھائے بہت

میر تقی میر

حسن کے سمجھنے کو عمر چاہیئے جاناں

دو گھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کھلتیں

پروین شاکر

عشق کا ذوق نظارہ مفت میں بدنام ہے

حسن خود بے تاب ہے جلوہ دکھانے کے لیے

اسرار الحق مجاز

حسن یوں عشق سے ناراض ہے اب

پھول خوشبو سے خفا ہو جیسے

افتخار اعظمی

تجھ سا کوئی جہان میں نازک بدن کہاں

یہ پنکھڑی سے ہونٹ یہ گل سا بدن کہاں

لالہ مادھو رام جوہر

اس کے چہرے کی چمک کے سامنے سادہ لگا

آسماں پہ چاند پورا تھا مگر آدھا لگا

افتخار نسیم

ہم اپنا عشق چمکائیں تم اپنا حسن چمکاؤ

کہ حیراں دیکھ کر عالم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو

بہادر شاہ ظفر

کسی میں تاب کہاں تھی کہ دیکھتا ان کو

اٹھی نقاب تو حیرت نقاب ہو کے رہی

جلیل مانک پوری

اف وہ مرمر سے تراشا ہوا شفاف بدن

دیکھنے والے اسے تاج محل کہتے ہیں

قتیل شفائی

عشق ہے بے گداز کیوں حسن ہے بے نیاز کیوں

میری وفا کہاں گئی ان کی جفا کو کیا ہوا

عبد المجید سالک

جس بھی فن کار کا شہکار ہو تم

اس نے صدیوں تمہیں سوچا ہوگا

احمد ندیم قاسمی

دیکھوں ترے ہاتھوں کو تو لگتا ہے ترے ہاتھ

مندر میں فقط دیپ جلانے کے لیے ہیں

جاں نثار اختر

کیوں جل گیا نہ تاب رخ یار دیکھ کر

جلتا ہوں اپنی طاقت دیدار دیکھ کر

مرزا غالب

وہ اپنے حسن کی خیرات دینے والے ہیں

تمام جسم کو کاسہ بنا کے چلنا ہے

احمد کمال پروازی

تیرے ہوتے ہوئے محفل میں جلاتے ہیں چراغ

لوگ کیا سادہ ہیں سورج کو دکھاتے ہیں چراغ

احمد فراز

یہ حسن دل فریب یہ عالم شباب کا

گویا چھلک رہا ہے پیالہ شراب کا

اثر صہبائی

کشمیر کی وادی میں بے پردہ جو نکلے ہو

کیا آگ لگاؤ گے برفیلی چٹانوں میں

ساغرؔ اعظمی

شوخی سے ٹھہرتی نہیں قاتل کی نظر آج

یہ برق بلا دیکھیے گرتی ہے کدھر آج

داغؔ دہلوی

یہ کھلا جسم کھلے بال یہ ہلکے ملبوس

تم نئی صبح کا آغاز کرو گے شاید

افروز عالم

اے صنم جس نے تجھے چاند سی صورت دی ہے

اسی اللہ نے مجھ کو بھی محبت دی ہے

حیدر علی آتش

تیری صورت سے کسی کی نہیں ملتی صورت

ہم جہاں میں تری تصویر لیے پھرتے ہیں

امام بخش ناسخ

داغ جگر کا اپنے احوال کیا سناؤں

بھرتے ہیں اس کے آگے شمع و چراغ پانی

جوشش عظیم آبادی

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے