Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

رنگ پر اشعار

رنگ پر شاعری مختلف رنگوں

سے بھری ہوئی ہے ۔ یہ شاعری تخلیق کار کے ذہن کی زرخیزی کا توانا اظہار بھی ہے کہ وہ کس طرح چیزوں کے درمیان مناسبتیں تلاش کرتا ہے اور شاعری کے حسن میں اضافہ ہوتا ہے ۔

تمام رات نہایا تھا شہر بارش میں

وہ رنگ اتر ہی گئے جو اترنے والے تھے

جمال احسانی

کسی کلی کسی گل میں کسی چمن میں نہیں

وہ رنگ ہے ہی نہیں جو ترے بدن میں نہیں

فرحت احساس

رنگ درکار تھے ہم کو تری خاموشی کے

ایک آواز کی تصویر بنانی تھی ہمیں

ناظر وحید

لب نازک کے بوسے لوں تو مسی منہ بناتی ہے

کف پا کو اگر چوموں تو مہندی رنگ لاتی ہے

آسی غازی پوری

غیر سے کھیلی ہے ہولی یار نے

ڈالے مجھ پر دیدۂ خوں بار رنگ

امام بخش ناسخ

اب کی ہولی میں رہا بے کار رنگ

اور ہی لایا فراق یار رنگ

امام بخش ناسخ

مجھ کو احساس رنگ و بو نہ ہوا

یوں بھی اکثر بہار آئی ہے

حبیب احمد صدیقی

تمہارے رنگ پھیکے پڑ گئے ناں؟

مری آنکھوں کی ویرانی کے آگے

فریحہ نقوی

بہار آئی کہ دن ہولی کے آئے

گلوں میں رنگ کھیلا جا رہا ہے

جلیل مانک پوری

رنگ ہی سے فریب کھاتے رہیں

خوشبوئیں آزمانا بھول گئے

انجم لدھیانوی

کس کی ہولی جشن نو روزی ہے آج

سرخ مے سے ساقیا دستار رنگ

امام بخش ناسخ

وہ رنگ رنگ کے چھینٹے پڑے کہ اس کے بعد

کبھی نہ پھر نئے کپڑے پہن کے نکلا میں

انور شعور

ہزار رنگ بد اماں سہی مگر دنیا

بس ایک سلسلۂ اعتبار ہے، کیا ہے

نکہت بریلوی

سانس لیتا ہوا ہر رنگ نظر آئے گا

تم کسی روز مرے رنگ میں آؤ تو سہی

عزیز نبیل

وہ آئے تو رنگ سنورنے لگتے ہیں

جیسے بچھڑا یار بھی کوئی موسم ہے

فرحت زاہد

اجالوں میں چھپی تھی ایک لڑکی

فلک کا رنگ روغن کر گئی ہے

سوپنل تیواری

عجب بہار دکھائی لہو کے چھینٹوں نے

خزاں کا رنگ بھی رنگ بہار جیسا تھا

جنید حزیں لاری

تو بھی دیکھے گا ذرا رنگ اتر لیں تیرے

ہم ہی رکھتے ہیں تجھے یاد کہ سب رکھتے ہیں

اقبال خاور

کب تک چنری پر ہی ظلم ہوں رنگوں کے

رنگریزہ تیری بھی قبا پر برسے رنگ

سوپنل تیواری

سیکڑوں رنگوں کی بارش ہو چکے گی اس کے بعد

عطر میں بھیگی ہوئی شاموں کا منظر آئے گا

عزیز نبیل

میں نے کچھ رنگ اچھالے تھے ہواؤں میں نبیلؔ

اور تصویر تری دھیان سے باہر آئی

عزیز نبیل

وہ کودتے اچھلتے رنگین پیرہن تھے

معصوم قہقہوں میں اڑتا گلال دیکھا

محمد اعظم

دشت وفا میں جل کے نہ رہ جائیں اپنے دل

وہ دھوپ ہے کہ رنگ ہیں کالے پڑے ہوئے

ہوش ترمذی

شب جو ہولی کی ہے ملنے کو ترے مکھڑے سے جان

چاند اور تارے لیے پھرتے ہیں افشاں ہاتھ میں

مصحفی غلام ہمدانی

میں دور تھا تو اپنے ہی چہرہ پہ مل لیا

اس زندگی کے ہاتھ میں جتنا گلال تھا

امیر قزلباش

کتنی رنگینیوں میں تیری یاد

کس قدر سادگی سے آتی ہے

فرید جاوید

لب دریا پہ دیکھ آ کر تماشا آج ہولی کا

بھنور کالے کے دف باجے ہے موج اے یار پانی میں

شاہ نصیر

مصلحت کا یہ کفن رکھتا ہے بے داغ ہمیں

اہل ایمان ہیں ہم رنگ سے ڈر لگتا ہے

نسیم صدیقی

ادھر بھی اک نظر اے جلوۂ رنگین و بیگانہ

طلوع ماہ کا ہے منتظر میرا سیہ خانہ

ادا جعفری

میرے عناصر خاک نہ ہوں بس رنگ بنیں

اور جنگل صحرا دریا پر برسے رنگ

سوپنل تیواری

موسم نے کھیت کھیت اگائی ہے فصل زرد

سرسوں کے کھیت ہیں کے جو پیلے نہیں رہے

مظفر حنفی

کتنی بے رنگ زندگی ہے مری

عشق کے رنگ یار بھر دو نا

فیصل قادری گنوری

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے