Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ویرانی پر اشعار

شاعری میں ویرانی ہماری

آس پاس کی دنیا کی بھی ہے ۔ کبھی چمن ویران ہوتا ہے، کبھی گھر اورکبھی بستیاں ۔ شاعر ان سب کو ایک ٹوٹے ہوئے دل اور زخمی احساس کے ساتھ موضوع بناتا ہے ۔ ساتھ ہی اس ویرانی کا دائرہ پھیل کر دل کی ویرانی تک آپہنچتا ہے ۔ عشق کا آسیب کس طرح سے دل کی ساری رونقوں کو کھا جاتا ہے اس کا اندازہ آپ کو ہمارے اس انتخاب سے ہوگا ۔

کوئی ویرانی سی ویرانی ہے

دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا

تشریح

اس شعر کا مرکزی خیال ویرانی ہے۔ وہ دشت کی ہو یا گھر کی۔ شعر سے جو معنی فوری طور پر برآمد ہوتے ہیں وہ یہ ہیں کہ ہم جس دشت کو دیکھ رہے ہیں وہ اس قدر ویران ہے کہ اسے دیکھ کر خوف محسوس ہوتا ہے اور گھر کی سلامتی یاد آتی ہے۔ لیکن ذرا غور کرنے پر اس کے یہ بھی معنی نکلتے ہیں کہ ہم تو سمجھتے تھے کہ ہمارے گھر جیسی ویرانی اور کہیں نہ ہوگی لیکن دشت میں اس قدر ویرانی ہے کہ اسے دیکھ کر گھر کی یاد آتی ہے۔ دشت کو دیکھ کر گھر یاد آنے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ شاعر خیال کرتا ہے کہ اسی طرح ایک دن ہمارا گھر بھی ویران ہو جائے گا۔ غالبؔ نے اک دوسرے موقع پر دوسرے انداز میں بستیوں کے ویران ہوجانے کا تذکرہ کیا ہے۔

یوں ہی گر روتا رہا غالبؔ تو اے اہلِ جہاں

دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں

گھر اور اس کے ویران ہو جانے کا اندیشہ اک اور شعر میں اس طرح بیان ہوا۔

گریہ چاہے ہے خرابی مرے کاشانے کی

در و دیوار سے ٹپکے ہے بیاباں ہونا

شعر کا اک اور مطلب یہ ہے کہ عاشق کو وحشت میں کسی ویرانے کی تلاش تھی۔ یوں تو اس کا اپنا گھر بھی ویران تھا لیکن وہ چاہتا تھا کہ کوئی جگہ اس سے بھی زیادہ ویران مل جائے اور اس تلاش میں وہ جنگل کا رخ کرتا ہے۔ لیکن وہاں بھی اسے مایوسی ہاتھ لگی ہے۔ وہ اپنے دل میں کہتا ہے کہ یہ بھی بھلا کوئی ویرانی ہے! اس سے زیادہ تو میرا گھر ویران ہے۔ اس شعر میں ویرانی اور اس سے شاعر کی مانوسیت کا بیان ہے۔ خواہ یہ ویرانی دشت کی ہو یا اپنے گھر کی، اس کے لیے ایک جیسی ہے۔ دراصل یہ شاعر کے اپنے اندر کی ویرانی ہے جو اسے خارج میں اپنی مختلف صورتوں میں نظر آتی ہے۔

محمد اعظم

مرزا غالب

دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے

یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا

میر تقی میر

اب جس طرف سے چاہے گزر جائے کارواں

ویرانیاں تو سب مرے دل میں اتر گئیں

کیفی اعظمی

دل پر دستک دینے کون آ نکلا ہے

کس کی آہٹ سنتا ہوں ویرانے میں

گلزار

صحرا کو بہت ناز ہے ویرانی پہ اپنی

واقف نہیں شاید مرے اجڑے ہوئے گھر سے

خمار بارہ بنکوی

گھر میں تھا کیا کہ ترا غم اسے غارت کرتا

وہ جو رکھتے تھے ہم اک حسرت تعمیر سو ہے

مرزا غالب

اتنی ساری یادوں کے ہوتے بھی جب دل میں

ویرانی ہوتی ہے تو حیرانی ہوتی ہے

افضل خان

ہم سے کہتے ہیں چمن والے غریبان چمن

تم کوئی اچھا سا رکھ لو اپنے ویرانے کا نام

فیض احمد فیض

بنا رکھی ہیں دیواروں پہ تصویریں پرندوں کی

وگرنہ ہم تو اپنے گھر کی ویرانی سے مر جائیں

افضل خان

بستیاں کچھ ہوئیں ویران تو ماتم کیسا

کچھ خرابے بھی تو آباد ہوا کرتے ہیں

آل احمد سرور

تمہارے رنگ پھیکے پڑ گئے ناں؟

مری آنکھوں کی ویرانی کے آگے

فریحہ نقوی

ختم ہونے کو ہیں اشکوں کے ذخیرے بھی جمالؔ

روئے کب تک کوئی اس شہر کی ویرانی پر

جمال احسانی

کس نے آباد کیا ہے مری ویرانی کو

عشق نے؟ عشق تو بیمار پڑا ہے مجھ میں

انجم سلیمی

میری بربادی میں حصہ ہے اپنوں کا

ممکن ہے یہ بات غلط ہو پر لگتا ہے

اے جی جوش

وہ کام رہ کے کرنا پڑا شہر میں ہمیں

مجنوں کو جس کے واسطے ویرانہ چاہیے

امیر امام

بستی بستی پربت پربت وحشت کی ہے دھوپ ضیاؔ

چاروں جانب ویرانی ہے دل کا اک ویرانہ کیا

احمد ضیا

دور تک دل میں دکھائی نہیں دیتا کوئی

ایسے ویرانے میں اب کس کو صدا دی جائے

علی احمد جلیلی

تنہائی کی دلہن اپنی مانگ سجائے بیٹھی ہے

ویرانی آباد ہوئی ہے اجڑے ہوئے درختوں میں

کیف احمد صدیقی

میں وہ بستی ہوں کہ یاد رفتگاں کے بھیس میں

دیکھنے آتی ہے اب میری ہی ویرانی مجھے

حفیظ جالندھری

نہ ہم وحشت میں اپنے گھر سے نکلے

نہ صحرا اپنی ویرانی سے نکلا

کاشف حسین غائر

فرق نہیں پڑتا ہم دیوانوں کے گھر میں ہونے سے

ویرانی امڈی پڑتی ہے گھر کے کونے کونے سے

مظفر حنفی

دو جیون تاراج ہوئے تب پوری ہوئی بات

کیسا پھول کھلا ہے اور کیسی ویرانی میں

جمال احسانی

اندر سے میں ٹوٹا پھوٹا ایک کھنڈر ویرانہ تھا

ظاہر جو تعمیر نہ ہوتی تو میں یارو کیا کرتا

افضل ہزاروی
بولیے