آہٹ پر اشعار
ہجرووصال کے سیاق میں
آہٹ کے لفظ نے بہت سے دلچسپ اشعارکا اضافہ کیا ہے ۔ ہجر کی آگ میں جلتے ہوئے عاشق کو ہرلمحہ محبوب کے آنے کی آہٹ ہی سنائی دیتی ہے لیکن نہ وہ آتا ہے اورنہ ہی اس کے آنے کا کوئی امکان نظرآتا ہے ۔ یہ آہٹیں ہجرمیں بھوگ رہے اس کے اس دکھ میں اور اضافہ کرتی ہیں ۔ اب نہ وہ عشق رہا اورنہ ہجر کی وہ صورتیں لیکن ان آہٹوں کوتوآج بھی سنا جاسکتا ہے ۔
بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں
تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں
-
موضوعات : جگجیت سنگھاور 2 مزید
کون آئے گا یہاں کوئی نہ آیا ہوگا
میرا دروازہ ہواؤں نے ہلایا ہوگا
-
موضوعات : انتظاراور 1 مزید
جسے نہ آنے کی قسمیں میں دے کے آیا ہوں
اسی کے قدموں کی آہٹ کا انتظار بھی ہے
آہٹ سی کوئی آئے تو لگتا ہے کہ تم ہو
سایہ کوئی لہرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
آہٹیں سن رہا ہوں یادوں کی
آج بھی اپنے انتظار میں گم
میں نے دن رات خدا سے یہ دعا مانگی تھی
کوئی آہٹ نہ ہو در پر مرے جب تو آئے
-
موضوعات : دعااور 2 مزید
نیند آئے تو اچانک تری آہٹ سن لوں
جاگ اٹھوں تو بدن سے تری خوشبو آئے
اخترؔ گزرتے لمحوں کی آہٹ پہ یوں نہ چونک
اس ماتمی جلوس میں اک زندگی بھی ہے
-
موضوعات : ترغیبیاور 1 مزید
آج بھی نقش ہیں دل پر تری آہٹ کے نشاں
ہم نے اس راہ سے اوروں کو گزرنے نہ دیا
خاموشی میں چاہے جتنا بیگانہ پن ہو
لیکن اک آہٹ جانی پہچانی ہوتی ہے
کوئی آواز نہ آہٹ نہ کوئی ہلچل ہے
ایسی خاموشی سے گزرے تو گزر جائیں گے
کوئی ہلچل ہے نہ آہٹ نہ صدا ہے کوئی
دل کی دہلیز پہ چپ چاپ کھڑا ہے کوئی
شام ڈھلے آہٹ کی کرنیں پھوٹی تھیں
سورج ڈوب کے میرے گھر میں نکلا تھا
یہ زلف بردوش کون آیا یہ کس کی آہٹ سے گل کھلے ہیں
مہک رہی ہے فضائے ہستی تمام عالم بہار سا ہے
-
موضوع : استقبال
پہلے تو اس کی یاد نے سونے نہیں دیا
پھر اس کی آہٹوں نے کہا جاگتے رہو
ہر لحظہ اس کے پاؤں کی آہٹ پہ کان رکھ
دروازے تک جو آیا ہے اندر بھی آئے گا
جب ذرا رات ہوئی اور مہ و انجم آئے
بارہا دل نے یہ محسوس کیا تم آئے
اس اندھیرے میں نہ اک گام بھی رکنا یارو
اب تو اک دوسرے کی آہٹیں کام آئیں گی
یہ بھی رہا ہے کوچۂ جاناں میں اپنا رنگ
آہٹ ہوئی تو چاند دریچے میں آ گیا
آہٹ بھی اگر کی تو تہہ ذات نہیں کی
لفظوں نے کئی دن سے کوئی بات نہیں کی
کسی آہٹ میں آہٹ کے سوا کچھ بھی نہیں اب
کسی صورت میں صورت کے سوا کیا رہ گیا ہے
کوئی دستک کوئی آہٹ نہ صدا ہے کوئی
دور تک روح میں پھیلا ہوا سناٹا ہے
پلٹ نہ جائیں ہمیشہ کو تیرے آنگن سے
گداز لمحوں کی بے خواب آہٹوں سے نہ روٹھ
-
موضوعات : آنگناور 1 مزید
دل کے سونے صحن میں گونجی آہٹ کس کے پاؤں کی
دھوپ بھرے سناٹے میں آواز سنی ہے چھاؤں کی