Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

فلمی اشعار پر اشعار

مندرجہ بالا عنوان کے

تحت ہم نے جو اشعار جمع کئے ہیں ان کا استعمال فلموں میں ہوا ہے اور اسی وجہ سے ان میں سے بیشتر اشعار زبان زد خاص وعام ہیں اور ہماری زندگی کے روزمرہ کے معاملات کو گھیرتے ہیں ۔ امید ہے آپ کو یہ انتخاب پسند آئے گا ۔

اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو

نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے

بشیر بدر

اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا

راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

فیض احمد فیض

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن

دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے

مرزا غالب

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بد نام

وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

اکبر الہ آبادی

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

علامہ اقبال

ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے

عشق کیجے پھر سمجھئے زندگی کیا چیز ہے

ندا فاضلی

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

مرزا غالب

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

علامہ اقبال

میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر

لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

مجروح سلطانپوری

بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں

تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں

فراق گورکھپوری

چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے

ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانا یاد ہے

حسرتؔ موہانی

وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن

اسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا

ساحر لدھیانوی

ہم کو مٹا سکے یہ زمانہ میں دم نہیں

ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں

جگر مراد آبادی

راہ دور عشق میں روتا ہے کیا

آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا

میر تقی میر

پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے

جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے

تشریح

میر کے شعر گویا غم ہستی کی تصویر نظر آتے ہیں یا یوں کہیے کہ غم ہستی کی تشریح کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جو دل پر بیتی ہے میر اس کو شعری جامہ پہنا کر کہنے میں بڑی سہولت محسوس کرتے ہیں۔

میر کہتے ہیں کہ ان کے حال دل سے تمام بوٹے تمام پتے اور تمام بیل بوٹے واقف ہیں۔ گویا سارا باغ سوائے ایک گل کے ان کے حال دل سے اور ان کی تمام کیفیات سے پوری طرح سے واقف ہے ۔

ایسا لگتا ہے کہ یہ پورا باغ گویا دنیا ہے جو ان کے حال دل سے واقف ہے اور یہ جو گُل ہے یہ ان کا محبوب ہے جو جان بوجھ کر ان کے حال دل سے واقفیت رکھنا ہی نہیں چاہتا ہے۔ جس کا ان کو انتہائی گلہ ہے

۔

میر کے لیے یہ کیفیت انتہائی تکلیف دہ ہے کہ ان کی خستہ حالی ان کے غم اور ان کی تکلیف سے ان کا محبوب واقف ہی نہیں ہے۔ اور دوسرے لفظوں میں گویا واقف ہونا بھی نہیں چاہتا۔

میر اس تکلیف کو بڑی شدت سے محسوس کرتے ہیں اور اس کا اظہار بھی انتہائی آسان لفظوں میں کر دیتے ہیں۔ یہ بیان اور یہ انداز خدائے سخن میر کی با کمال صلاحیت ہے۔

سہیل آزاد

میر تقی میر

زندگی زندہ دلی کا ہے نام

مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں

امام بخش ناسخ

اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا

جانے کیوں آج ترے نام پہ رونا آیا

شکیل بدایونی

یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجے

اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

جگر مراد آبادی

کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا

کہیں زمین کہیں آسماں نہیں ملتا

ندا فاضلی

ہمیں بھی نیند آ جائے گی ہم بھی سو ہی جائیں گے

ابھی کچھ بے قراری ہے ستارو تم تو سو جاؤ

قتیل شفائی

سیر کر دنیا کی غافل زندگانی پھر کہاں

زندگی گر کچھ رہی تو یہ جوانی پھر کہاں

خواجہ میر درد

یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے

لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی

مظفر رزمی

عمر دراز مانگ کے لائی تھی چار دن

دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں

سیماب اکبرآبادی

وہ آئے گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے

کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں

مرزا غالب

وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا

وہ بات ان کو بہت نا گوار گزری ہے

فیض احمد فیض

تم سے بچھڑ کر زندہ ہیں

جان بہت شرمندہ ہیں

افتخار عارف

جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں

دبا دبا سا سہی دل میں پیار ہے کہ نہیں

کیفی اعظمی

اک لفظ محبت کا ادنیٰ یہ فسانا ہے

سمٹے تو دل عاشق پھیلے تو زمانہ ہے

جگر مراد آبادی

الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا

دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا

میر تقی میر

صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے

عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے

منشی امیر اللہ تسلیم

جب بھی آتا ہے مرا نام ترے نام کے ساتھ

جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں

قتیل شفائی

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

علامہ اقبال

گھر سے مسجد ہے بہت دور چلو یوں کر لیں

کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے

ندا فاضلی

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے

دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

بسمل عظیم آبادی

اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میرؔ

پھر ملیں گے اگر خدا لایا

میر تقی میر

ہم لبوں سے کہہ نہ پائے ان سے حال دل کبھی

اور وہ سمجھے نہیں یہ خامشی کیا چیز ہے

ندا فاضلی

سورج ہوں زندگی کی رمق چھوڑ جاؤں گا

میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑ جاؤں گا

اقبال ساجد

یوں تو ہر شام امیدوں میں گزر جاتی ہے

آج کچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا

شکیل بدایونی

خبر سن کر مرے مرنے کی وہ بولے رقیبوں سے

خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں

داغؔ دہلوی

سرخ رو ہوتا ہے انساں ٹھوکریں کھانے کے بعد

رنگ لاتی ہے حنا پتھر پہ پس جانے کے بعد

سید غلام محمد مست کلکتوی

دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

مہتاب رائے تاباں

ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں

میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

جگر مراد آبادی

قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو

خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو

میاں داد خاں سیاح

میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا

ہر فکر کو دھوئیں میں اڑاتا چلا گیا

ساحر لدھیانوی

پتھر کے جگر والو غم میں وہ روانی ہے

خود راہ بنا لے گا بہتا ہوا پانی ہے

بشیر بدر

کوئی کیوں کسی کا لبھائے دل کوئی کیا کسی سے لگائے دل

وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے

بہادر شاہ ظفر

یاد ماضی عذاب ہے یارب

چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

اختر انصاری

عید کا دن ہے گلے آج تو مل لے ظالم

رسم دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے

قمر بدایونی

بھانپ ہی لیں گے اشارہ سر محفل جو کیا

تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں

لالہ مادھو رام جوہر

جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کہ رات دن

بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے

مرزا غالب

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے