Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مشورہ پر اشعار

یہاں ہم ان اشعار کا

انتخاب پیش کر رہے ہیں جو زندگی کرنے کی الگ الگ صورتوں میں آپ کی رہنمائی کریں گے ۔ یہ مشورے عام قسم کے مشورے نہیں ہیں بلکہ زندگی کی بنیادی حقیقتوں اور سچائیوں کا شعور حاصل کرنے کے بعد سامنے آنے والے تجربات ہیں ۔ آپ انہیں پڑھئے اور زندگی کے ایک سبق کے طور پر انہیں اخذ کیجئے ۔

میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر

لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

مجروح سلطانپوری

وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن

اسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا

ساحر لدھیانوی

ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن

تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا

تشریح

یہ شعر اسرارالحق مجاز کے مشہور اشعار میں سے ایک ہے۔ ماتھے پہ آنچل ہونے کے کئی معنی ہیں۔ مثلاً شرم وحیا ہونا، اقدار کا پاس ہوناوغیرہ اور ہندوستانی معاشرے میں ان چیزوں کو عورت کا زیور سمجھا جاتا ہے۔مگر جب عورت کے اس زیور کو مرد اساس معاشرے میں عورت کی کمزوری سمجھا جاتا ہے تو عورت کی شخصیت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ شاعر نے اسی حقیقت کو اپنے شعر کا مضمون بنایا ہے۔ شاعر عورت سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ اگرچہ تمہارے ماتھے پر شرم و حیا کا آنچل خوب لگتا ہے مگر اسے اپنی کمزوری مت بنا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ تم اپنے آنچل سے انقلاب کا پرچم بنا اور اپنے حقوق کے لئے اس پرچم کو بلند کرو۔

شفق سوپوری

اسرار الحق مجاز

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی

تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن

علامہ اقبال

بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو

ایسا کچھ کر کے چلو یاں کہ بہت یاد رہو

میر تقی میر

دشمنی لاکھ سہی ختم نہ کیجے رشتہ

دل ملے یا نہ ملے ہاتھ ملاتے رہئے

ندا فاضلی

حیات لے کے چلو کائنات لے کے چلو

چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو

مخدومؔ محی الدین

زندگی یوں ہی بہت کم ہے محبت کے لیے

روٹھ کر وقت گنوانے کی ضرورت کیا ہے

نامعلوم

تمنا درد دل کی ہو تو کر خدمت فقیروں کی

نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں

علامہ اقبال

بچھڑنے کا ارادہ ہے تو مجھ سے مشورہ کر لو

محبت میں کوئی بھی فیصلہ ذاتی نہیں ہوتا

افضل خان

وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے

تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں

علامہ اقبال

کھینچو نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو

جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو

اکبر الہ آبادی

سایہ ہے کم کھجور کے اونچے درخت کا

امید باندھئے نہ بڑے آدمی کے ساتھ

کیف بھوپالی

کہاں آ کے رکنے تھے راستے کہاں موڑ تھا اسے بھول جا

وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ جو نہیں ملا اسے بھول جا

امجد اسلام امجد

اے ذوقؔ تکلف میں ہے تکلیف سراسر

آرام میں ہے وہ جو تکلف نہیں کرتا

تشریح

یہ ذوق کا ایک خوبصورت شعر ہے اور اس میں ذوقؔ نے ایک اہم نکتے والی بات بتائی ہے۔ اگرچہ اس شعر کا اہم لفظ تکلف ہے مگر تکلیف کی رعایت سے آرام بہت تکلیف پیدا کرتے ہیں۔

ذوق اس شعر میں تکلف یعنی بناوٹ کی بدعت پر روشنی ڈالتے ہی۔ بناوٹ وہ چیز ہووتی ہے جس میں حقیقت نہ ہو یعنی جو بناوٹی ہو۔ بناوٹ زندگی کے تمام معاملات میں بھی ہوتی ہے اور رشتوں میں بھی۔ عام معاملات میں بناوٹ سے مراد یہ ہے کہ آدمی اپنی وہ حیثیت دکھانے کی کوشش کرے جو اصلی نہ ہو اور رشتوں میں بناوٹ سے مراد ایسے جذبات کا اظہار کرنا جو حقیقی نہ ہوں۔ بہرحال معاملہ جو بھی ہے اگر انسان عام معاملات میں بناوٹ سے کام لے تو خود کوو نقصان پہنچاتا ہے اور اگر رشتوں میں بناوٹ سے کام لے تو ایک نہ ایک دن تو بناوٹ کھل ہی جاتی ہے پھر رشتے ٹوٹ جاتے ہیں۔

ذوق کہتے کہ دراصل بناوٹ اور تضع ایک بھرپور تکلیف ہے اور جو آدمی بناوٹ سے کام نہیں لیتا اگرچہ وقتی طور پر اسے تکلیف محسوس ہوتی ہے مگر بالآخر آرام میں ہوتا ہے۔ لہٰذا انسان کو بناوٹ سے پرہیز کرنا چاہئے۔

شفق سوپوری

شیخ ابراہیم ذوقؔ

دنیا تو چاہتی ہے یونہی فاصلے رہیں

دنیا کے مشوروں پہ نہ جا اس گلی میں چل

حبیب جالب

بھنور سے لڑو تند لہروں سے الجھو

کہاں تک چلو گے کنارے کنارے

رضا ہمدانی

پیدا وہ بات کر کہ تجھے روئیں دوسرے

رونا خود اپنے حال پہ یہ زار زار کیا

مرزا محمد ہادی عزیز لکھنوی

ہاں سمندر میں اتر لیکن ابھرنے کی بھی سوچ

ڈوبنے سے پہلے گہرائی کا اندازہ لگا

عرش صدیقی

دلوں میں حب وطن ہے اگر تو ایک رہو

نکھارنا یہ چمن ہے اگر تو ایک رہو

جعفر ملیح آبادی

بات کا زخم ہے تلوار کے زخموں سے سوا

کیجیے قتل مگر منہ سے کچھ ارشاد نہ ہو

داغؔ دہلوی

اس سے پہلے کہ لوگ پہچانیں

خود کو پہچان لو تو بہتر ہے

دواکر راہی

فراغت سے دنیا میں ہر دم نہ بیٹھو

اگر چاہتے ہو فراغت زیادہ

الطاف حسین حالی

کبھی بھول کر کسی سے نہ کرو سلوک ایسا

کہ جو تم سے کوئی کرتا تمہیں ناگوار ہوتا

اسماعیل میرٹھی

خدا نے نیک صورت دی تو سیکھو نیک باتیں بھی

برے ہوتے ہو اچھے ہو کے یہ کیا بد زبانی ہے

امیر مینائی

اتنا نہ اپنے جامے سے باہر نکل کے چل

دنیا ہے چل چلاؤ کا رستہ سنبھل کے چل

بہادر شاہ ظفر

اتنی کاوش بھی نہ کر میری اسیری کے لیے

تو کہیں میرا گرفتار نہ سمجھا جائے

سلیم احمد

فرصت کار فقط چار گھڑی ہے یارو

یہ نہ سوچو کی ابھی عمر پڑی ہے یارو

جاں نثار اختر

میری ہی جان کے دشمن ہیں نصیحت والے

مجھ کو سمجھاتے ہیں ان کو نہیں سمجھاتے ہیں

لالہ مادھو رام جوہر

بد تر ہے موت سے بھی غلامی کی زندگی

مر جائیو مگر یہ گوارا نہ کیجیو

حفیظ میرٹھی

زخم جو تو نے دیے تجھ کو دکھا تو دوں مگر

پاس تیرے بھی نصیحت کے سوا ہے اور کیا

عرفان احمد

مے کشو آگے بڑھو تشنہ لبو آگے بڑھو

اپنا حق مانگا نہیں جاتا ہے چھینا جائے ہے

کیف بھوپالی

دیکھ رہ جائے نہ تو خواہش کے گنبد میں اسیر

گھر بناتا ہے تو سب سے پہلے دروازہ لگا

عرش صدیقی

نہ گرد و پیش سے اس درجہ بے نیاز گزر

جو بے خبر سے ہیں سب کی خبر بھی رکھتے ہیں

دل ایوبی

مزرع دنیا میں دانا ہے تو ڈر کر ہاتھ ڈال

ایک دن دینا ہے تجھ کو دانے دانے کا حساب

شیخ ظہور الدین حاتم

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے