Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سفر پر اشعار

سفر شاعری میں ایک عام

سفربھی ہے اورحرکت کا استعارہ بھی ۔ منزل کو پالینے کیلئے سفرہی بنیادی شرط ہے ۔ شاعروں نے سفرکی مشکلوں اوران کے نتیجےمیں حاصل ہونے والی خوشیوں کا الگ الگ ڈھنگ سے اظہارکیا ہے ۔ یہ شاعری زندگی کےمشکل لمحوں میں حوصلے کا ذریعہ بھی ہے۔

میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر

لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

مجروح سلطانپوری

کسی کو گھر سے نکلتے ہی مل گئی منزل

کوئی ہماری طرح عمر بھر سفر میں رہا

احمد فراز

زندگی یوں ہوئی بسر تنہا

قافلہ ساتھ اور سفر تنہا

گلزار

اس سفر میں نیند ایسی کھو گئی

ہم نہ سوئے رات تھک کر سو گئی

راہی معصوم رضا

مجھے خبر تھی مرا انتظار گھر میں رہا

یہ حادثہ تھا کہ میں عمر بھر سفر میں رہا

ساقی فاروقی

سفر میں دھوپ تو ہوگی جو چل سکو تو چلو

سبھی ہیں بھیڑ میں تم بھی نکل سکو تو چلو

ندا فاضلی

نہ منزلوں کو نہ ہم رہ گزر کو دیکھتے ہیں

عجب سفر ہے کہ بس ہم سفر کو دیکھتے ہیں

احمد فراز

سفر میں ایسے کئی مرحلے بھی آتے ہیں

ہر ایک موڑ پہ کچھ لوگ چھوٹ جاتے ہیں

عابد ادیب

میں لوٹنے کے ارادے سے جا رہا ہوں مگر

سفر سفر ہے مرا انتظار مت کرنا

ساحل سحری نینیتالی

ڈر ہم کو بھی لگتا ہے رستے کے سناٹے سے

لیکن ایک سفر پر اے دل اب جانا تو ہوگا

جاوید اختر

ایک سفر وہ ہے جس میں

پاؤں نہیں دل تھکتا ہے

احمد فراز

کس کی تلاش ہے ہمیں کس کے اثر میں ہیں

جب سے چلے ہیں گھر سے مسلسل سفر میں ہیں

آشفتہ چنگیزی

ہے کوئی جو بتائے شب کے مسافروں کو

کتنا سفر ہوا ہے کتنا سفر رہا ہے

شہریار

سفر میں کوئی کسی کے لیے ٹھہرتا نہیں

نہ مڑ کے دیکھا کبھی ساحلوں کو دریا نے

فارغ بخاری

آئے ٹھہرے اور روانہ ہو گئے

زندگی کیا ہے، سفر کی بات ہے

حیدر علی جعفری

نہیں ہوتی ہے راہ عشق میں آسان منزل

سفر میں بھی تو صدیوں کی مسافت چاہئے ہے

فرحت ندیم ہمایوں

گو آبلے ہیں پاؤں میں پھر بھی اے رہروو

منزل کی جستجو ہے تو جاری رہے سفر

نور قریشی

چلے تھے جس کی طرف وہ نشان ختم ہوا

سفر ادھورا رہا آسمان ختم ہوا

غلام مرتضی راہی

میں اپنے آپ میں گہرا اتر گیا شاید

مرے سفر سے الگ ہو گئی روانی مری

عباس تابش

سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے

ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہے

حیدر علی آتش

میری تقدیر میں منزل نہیں ہے

غبار کارواں ہے اور میں ہوں

نامعلوم

یہ بات یاد رکھیں گے تلاشنے والے

جو اس سفر پہ گئے لوٹ کر نہیں آئے

آشفتہ چنگیزی

وہ لطف اٹھائے گا سفر کا

آپ اپنے میں جو سفر کرے گا

غمگین دہلوی

ابھی سفر میں کوئی موڑ ہی نہیں آیا

نکل گیا ہے یہ چپ چاپ داستان سے کون

اختر شمار

کبھی میری طلب کچے گھڑے پر پار اترتی ہے

کبھی محفوظ کشتی میں سفر کرنے سے ڈرتا ہوں

فرید پربتی

اپنی سی خاک اڑا کے بیٹھ رہے

اپنا سا قافلہ بناتے ہوئے

شاہین عباس

میں سفر میں ہوں مگر سمت سفر کوئی نہیں

کیا میں خود اپنا ہی نقش کف پا ہوں کیا ہوں

اختر سعید خان

ابھی سے شکوۂ پست و بلند ہم سفرو

ابھی تو راہ بہت صاف ہے ابھی کیا ہے

رئیس امروہوی

رہ طلب میں کسے آرزوئے منزل ہے

شعور ہو تو سفر خود سفر کا حاصل ہے

غلام ربانی تاباں

مسافرت کا ولولہ سیاحتوں کا مشغلہ

جو تم میں کچھ زیادہ ہے سفر کرو سفر کرو

اکبر حیدرآبادی

راہ آساں دیکھ کر سب خوش تھے پھر میں نے کہا

سوچ لیجے ایک انداز نظر میرا بھی ہے

راجیندر منچندا بانی

طلسم خواب زلیخا و دام بردہ فروش

ہزار طرح کے قصے سفر میں ہوتے ہیں

عزیز حامد مدنی

میں اپنی انگشت کاٹتا تھا کہ بیچ میں نیند آ نہ جائے

اگرچہ سب خواب کا سفر تھا مگر حقیقت میں آ بسا ہوں

عزم بہزاد

کبھی تمام تو کر بد گمانیوں کا سفر

کسی بہانے کسی روز آزما تو سہی

عقیل نعمانی

نہ رنج ہجرت تھا اور نہ شوق سفر تھا دل میں

سب اپنے اپنے گناہ کا بوجھ ڈھو رہے تھے

جمال احسانی

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے