بے خودی پر اشعار
بے خودی شعور کی حالت
سے نکل جانے کی ایک کیفیت ہے ۔ ایک عاشق بے خودی کو کس طرح جیتا ہے اور اس کے ذریعے وہ عشق کے کن کن مقامات کی سیر کرتا ہے اس کا دلچسپ بیان ان اشعار میں ہے ۔ اس طرح کے شعروں کی ایک خاص جہت یہ بھی ہے کہ ان کے ذریعے کلاسیکی عاشق کی شخصیت کی پرتیں کھلتی ہیں ۔
اے بے خودی دل مجھے یہ بھی خبر نہیں
کس دن بہار آئی میں دیوانہ کب ہوا
مے سے غرض نشاط ہے کس رو سیاہ کو
اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیئے
پا بہ گل بے خودیٔ شوق سے میں رہتا تھا
کوچۂ یار میں حالت مری دیوار کی تھی
اللہ رے بے خودی کہ ترے پاس بیٹھ کر
تیرا ہی انتظار کیا ہے کبھی کبھی
اب میں حدود ہوش و خرد سے گزر گیا
ٹھکراؤ چاہے پیار کرو میں نشے میں ہوں
-
موضوع : نشہ
اللہ رے بے خودی کہ چلا جا رہا ہوں میں
منزل کو دیکھتا ہوا کچھ سوچتا ہوا
-
موضوع : ماضی
بے خودی لے گئی کہاں ہم کو
دیر سے انتظار ہے اپنا
کیا ہے جب سیں عمل بے خودی کے حاکم نے
خرد نگر کی رعیت ہوئی ہے رو بگریز
اے زندگی جنوں نہ سہی بے خودی سہی
تو کچھ بھی اپنی عقل سے پاگل اٹھا تو لا
میرے اور یار کے پردہ تو نہیں کچھ لیکن
بے خودی بیچ میں دیوار ہوا چاہتی ہے
بے خودی نے کر دیا جذبات دل سے بے نیاز
اب ترا ملنا نہ ملنا سب برابر ہو گیا
بے خودی میں ہم تو تیرا در سمجھ کر جھک گئے
اب خدا معلوم کعبہ تھا کہ وہ بت خانہ تھا
اب ان حدود میں لایا ہے انتظار مجھے
وہ آ بھی جائیں تو آئے نہ اعتبار مجھے
اچھا خاصا بیٹھے بیٹھے گم ہو جاتا ہوں
اب میں اکثر میں نہیں رہتا تم ہو جاتا ہوں
سر پائے خم پہ چاہیئے ہنگام بے خودی
رو سوئے قبلہ وقت مناجات چاہیئے
اتنی پی ہے کہ بعد توبہ بھی
بے پیے بے خودی سی رہتی ہے
-
موضوعات : توبہاور 2 مزید
مئے حیات میں شامل ہے تلخیٔ دوراں
جبھی تو پی کے ترستے ہیں بے خودی کے لئے
کمال عشق تو دیکھو وہ آ گئے لیکن
وہی ہے شوق وہی انتظار باقی ہے
-
موضوع : انتظار
چلے تو پاؤں کے نیچے کچل گئی کوئی شے
نشے کی جھونک میں دیکھا نہیں کہ دنیا ہے
جس میں ہو یاد بھی تری شامل
ہائے اس بے خودی کو کیا کہیے
پاس آداب وفا تھا کہ شکستہ پائی
بے خودی میں بھی نہ ہم حد سے گزرنے پائے
اللہ رے بے خودی کہ ترے گھر کے آس پاس
ہر در پہ دی صدا ترے در کے خیال میں
ہاں کیف بے خودی کی وہ ساعت بھی یاد ہے
محسوس کر رہا تھا خدا ہو گیا ہوں میں
اتنی پی جائے کہ مٹ جائے میں اور تو کی تمیز
یعنی یہ ہوش کی دیوار گرا دی جائے
عمر جو بے خودی میں گزری ہے
بس وہی آگہی میں گزری ہے
-
موضوع : آگہی
جاں بلب لمحۂ تسکیں مری قسمت ہے شمیمؔ
بے خودی پھر مجھے دیوانہ بناتی کیوں ہے
کہہ دیں تم سے کون ہیں کیا ہیں کہاں رہتے ہیں ہم
بے خودوں کو اپنے جب تم ہوش میں آنے تو دو
شہ بے خودی نے عطا کیا مجھے اب لباس برہنگی
نہ خرد کی بخیہ گری رہی نہ جنوں کی پردہ دری رہی
دن رات مے کدے میں گزرتی تھی زندگی
اخترؔ وہ بے خودی کے زمانے کدھر گئے
-
موضوعات : زندگیاور 1 مزید
کتنا مشکل ہے خود بخود رونا
بے خودی سے رہا کرے کوئی
کہاں تک اے واعظو یہ جھگڑے مزے اٹھانے دو بے خودی کے
جو ہوش میں ہوں تو میں یہ سمجھوں حرام کیا ہے حلال کیا ہے
عالم سے بے خبر بھی ہوں عالم میں بھی ہوں میں
ساقی نے اس مقام کو آساں بنا دیا
-
موضوع : نشہ
خواب میں نام ترا لے کے پکار اٹھتا ہوں
بے خودی میں بھی مجھے یاد تری یاد کی ہے
بے خودی میں لے لیا بوسہ خطا کیجے معاف
یہ دل بیتاب کی ساری خطا تھی میں نہ تھا
-
موضوعات : بوسہاور 1 مزید
نہ تو ہوش سے تعارف نہ جنوں سے آشنائی
یہ کہاں پہنچ گئے ہیں تری بزم سے نکل کے
گئی بہار مگر اپنی بے خودی ہے وہی
سمجھ رہا ہوں کہ اب تک بہار باقی ہے
-
موضوع : بہار
جز بے خودی گزر نہیں کوئے حبیب میں
گم ہو گیا جو میں تو ملا راستہ مجھے
یہی تو کفر ہے یاران بے خودی کے حضور
جو کفر و دیں کا مرے یار امتیاز رہا
یہ کیسا نشہ ہے میں کس عجب خمار میں ہوں
تو آ کے جا بھی چکا ہے، میں انتظار میں ہوں
-
موضوع : انتظار
ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے
عشق کیجے پھر سمجھئے زندگی کیا چیز ہے
-
موضوعات : جگجیت سنگھاور 7 مزید
چھوڑ کر کوچۂ مے خانہ طرف مسجد کے
میں تو دیوانہ نہیں ہوں جو چلوں ہوش کی راہ
-
موضوع : مے کدہ
تیرے خیال میں کبھی اس طرح کھو گئے
تیرا خیال بھی ہمیں اکثر نہیں رہا
-
موضوع : یاد
وفور بے خودی میں رکھ دیا سر ان کے قدموں پر
وہ کہتے ہی رہے واصفؔ یہ محفل ہے یہ محفل ہے