وصال پر اشعار
محبوب سے وصال کی آرزو
تو آپ سب نے پال رکھی ہوگی لیکن وہ آرزو ہی کیا جو پوری ہو جائے ۔ شاعری میں بھی آ پ دیکھیں گے کہ بچارا عاشق عمر بھر وصال کی ایک ناکام خواہش میں ہی جیتا رہتا ہے ۔ یہاں ہم نے کچھ ایسے اشعار جمع کئے ہیں جو ہجر و وصال کی اس دلچسپ کہانی کو سلسلہ وار بیان کرتے ہیں ۔ اس کہانی میں کچھ ایسے موڑ بھی ہیں جو آپ کو حیران کر دیں گے ۔
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
-
موضوعات : انتظاراور 3 مزید
نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی
نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی
-
موضوعات : آرزواور 2 مزید
آج دیکھا ہے تجھ کو دیر کے بعد
آج کا دن گزر نہ جائے کہیں
-
موضوعات : عشقاور 3 مزید
شب وصال ہے گل کر دو ان چراغوں کو
خوشی کی بزم میں کیا کام جلنے والوں کا
شبِ وصال یعنی محبوب سے ملاقات کی رات۔ گل کرنا یعنی بجھا دینا۔ اس شعر میں شبِ وصال کی مناسبت سے چراغ اور چراغ کی مناسبت سے گل کرنا۔ اور ’خوشی کی بزم میں‘ کی رعایت سے جلنے والے داغ دہلوی کی مضمون آفرینی کی عمدہ مثال ہے۔ شعر میں کئی کردار ہیں۔ ایک شعری کردار، دوسرا وہ( ایک یا بہت سے) جن سے شعری کردار مخاطب ہے۔ شعر میں جو طنز یہ لہجہ ہے اس نے مجموعی صورت حال کو مزید دلچسپ بنا دیا ہے۔اور جب ’ان چراغوں کو‘ کہا تو گویا کچھ مخصوص چراغوں کی طرف اشارہ کیا۔
شعر کے قریب کے معنی تو یہ ہیں کہ عاشق و معشوق کے ملن کی رات ہے، اس لئے چراغوں کو بجھا دو کیونکہ ایسی راتوں میں جلنے والوں کا کام نہیں۔ چراغ بجھانے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی تھی کہ ملن کی رات میں جو بھی ہو وہ پردے میں رہے مگر جب یہ کہا کہ جلنے والوں کا کیا کام ہے تو شعر کا مفہوم ہی بدل دیا۔ دراصل جلنے والے استعارہ ہیں ان لوگوں کا جو شعری کردار اور اس کے محبوب کے ملن پر جلتے ہیں اور حسد کرتے ہیں۔ اسی لئے کہا ہے کہ ان حسد کرنے والوں کو اس بزم سے اٹھا دو۔
تشریح
شبِ وصال یعنی محبوب سے ملاقات کی رات۔ گل کرنا یعنی بجھا دینا۔ اس شعر میں شبِ وصال کی مناسبت سے چراغ اور چراغ کی مناسبت سے گل کرنا۔ اور ’خوشی کی بزم میں‘ کی رعایت سے جلنے والے داغ دہلوی کی مضمون آفرینی کی عمدہ مثال ہے۔ شعر میں کئی کردار ہیں۔ ایک شعری کردار، دوسرا وہ( ایک یا بہت سے) جن سے شعری کردار مخاطب ہے۔ شعر میں جو طنز یہ لہجہ ہے اس نے مجموعی صورت حال کو مزید دلچسپ بنا دیا ہے۔اور جب ’ان چراغوں کو‘ کہا تو گویا کچھ مخصوص چراغوں کی طرف اشارہ کیا۔
شعر کے قریب کے معنی تو یہ ہیں کہ عاشق و معشوق کے ملن کی رات ہے، اس لئے چراغوں کو بجھا دو کیونکہ ایسی راتوں میں جلنے والوں کا کام نہیں۔ چراغ بجھانے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی تھی کہ ملن کی رات میں جو بھی ہو وہ پردے میں رہے مگر جب یہ کہا کہ جلنے والوں کا کیا کام ہے تو شعر کا مفہوم ہی بدل دیا۔ دراصل جلنے والے استعارہ ہیں ان لوگوں کا جو شعری کردار اور اس کے محبوب کے ملن پر جلتے ہیں اور حسد کرتے ہیں۔ اسی لئے کہا ہے کہ ان حسد کرنے والوں کو اس بزم سے اٹھا دو۔
شفق سوپوری
وصل کا دن اور اتنا مختصر
دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے
-
موضوعات : مشہور اشعاراور 1 مزید
سو چاند بھی چمکیں گے تو کیا بات بنے گی
تم آئے تو اس رات کی اوقات بنے گی
-
موضوعات : استقبالاور 3 مزید
بھلا ہم ملے بھی تو کیا ملے وہی دوریاں وہی فاصلے
نہ کبھی ہمارے قدم بڑھے نہ کبھی تمہاری جھجک گئی
-
موضوعات : عشقاور 2 مزید
یہ آرزو بھی بڑی چیز ہے مگر ہم دم
وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں
ذرا وصال کے بعد آئنہ تو دیکھ اے دوست
ترے جمال کی دوشیزگی نکھر آئی
-
موضوعات : آئینہاور 2 مزید
چند کلیاں نشاط کی چن کر مدتوں محو یاس رہتا ہوں
تیرا ملنا خوشی کی بات سہی تجھ سے مل کر اداس رہتا ہوں
وصل میں رنگ اڑ گیا میرا
کیا جدائی کو منہ دکھاؤں گا
وصل ہو یا فراق ہو اکبرؔ
جاگنا رات بھر مصیبت ہے
اوس سے پیاس کہاں بجھتی ہے
موسلا دھار برس میری جان
-
موضوعات : بارشاور 2 مزید
گزرنے ہی نہ دی وہ رات میں نے
گھڑی پر رکھ دیا تھا ہاتھ میں نے
اس سے ملنے کی خوشی بعد میں دکھ دیتی ہے
جشن کے بعد کا سناٹا بہت کھلتا ہے
وہ گلے سے لپٹ کے سوتے ہیں
آج کل گرمیاں ہیں جاڑوں میں
-
موضوع : سردی
فرازؔ عشق کی دنیا تو خوبصورت تھی
یہ کس نے فتنۂ ہجر و وصال رکھا ہے
-
موضوعات : عشقاور 2 مزید
آرزو وصل کی رکھتی ہے پریشاں کیا کیا
کیا بتاؤں کہ میرے دل میں ہے ارماں کیا کیا
-
موضوعات : آرزواور 3 مزید
پھر بیٹھے بیٹھے وعدۂ وصل اس نے کر لیا
پھر اٹھ کھڑا ہوا وہی روگ انتظار کا
تم کہاں وصل کہاں وصل کی امید کہاں
دل کے بہکانے کو اک بات بنا رکھی ہے
میں سمجھتا ہوں کہ ہے جنت و دوزخ کیا چیز
ایک ہے وصل ترا ایک ہے فرقت تیری
وصال یار کی خواہش میں اکثر
چراغ شام سے پہلے جلا ہوں
کہاں ہم کہاں وصل جاناں کی حسرتؔ
بہت ہے انہیں اک نظر دیکھ لینا
ارمان وصل کا مری نظروں سے تاڑ کے
پہلے ہی سے وہ بیٹھ گئے منہ بگاڑ کے
ترا وصل ہے مجھے بے خودی ترا ہجر ہے مجھے آگہی
ترا وصل مجھ کو فراق ہے ترا ہجر مجھ کو وصال ہے
-
موضوعات : آگہیاور 2 مزید
دھڑکتی قربتوں کے خواب سے جاگے تو جانا
ذرا سے وصل نے کتنا اکیلا کر دیا ہے
دوست دل رکھنے کو کرتے ہیں بہانے کیا کیا
روز جھوٹی خبر وصل سنا جاتے ہیں
رکھ نہ آنسو سے وصل کی امید
کھارے پانی سے دال گلتی نہیں
وصل ہو جائے یہیں حشر میں کیا رکھا ہے
آج کی بات کو کیوں کل پہ اٹھا رکھا ہے
ہجر و وصال چراغ ہیں دونوں تنہائی کے طاقوں میں
اکثر دونوں گل رہتے ہیں اور جلا کرتا ہوں میں
-
موضوعات : تنہائیاور 1 مزید
شب وصل کی کیا کہوں داستاں
زباں تھک گئی گفتگو رہ گئی
آپ تو منہ پھیر کر کہتے ہیں آنے کے لیے
وصل کا وعدہ ذرا آنکھیں ملا کر کیجیے
ملنے کی یہ کون گھڑی تھی
باہر ہجر کی رات کھڑی تھی
جب ذکر کیا میں نے کبھی وصل کا ان سے
وہ کہنے لگے پاک محبت ہے بڑی چیز
اسے خبر تھی کہ ہم وصال اور ہجر اک ساتھ چاہتے ہیں
تو اس نے آدھا اجاڑ رکھا ہے اور آدھا بنا دیا ہے
-
موضوع : ہجر
شب وصل تھی چاندنی کا سماں تھا
بغل میں صنم تھا خدا مہرباں تھا
آنکھیں بتا رہی ہیں کہ جاگے ہو رات کو
ان ساغروں میں بوئے شراب وصال ہے
-
موضوع : آنکھ
کبھی موج خواب میں کھو گیا کبھی تھک کے ریت پہ سو گیا
یوں ہی عمر ساری گزار دی فقط آرزوئے وصال میں
-
موضوع : آرزو
وصل کی بنتی ہیں ان باتوں سے تدبیریں کہیں
آرزوؤں سے پھرا کرتی ہیں تقدیریں کہیں
-
موضوعات : آرزواور 1 مزید
او وصل میں منہ چھپانے والے
یہ بھی کوئی وقت ہے حیا کا
-
موضوع : حیا
ہر عشق کے منظر میں تھا اک ہجر کا منظر
اک وصل کا منظر کسی منظر میں نہیں تھا
-
موضوعات : جدائیاور 2 مزید
اس کی قربت کا نشہ کیا چیز ہے
ہاتھ پھر جلتے توے پر رکھ دیا
سرد جھونکوں سے بھڑکتے ہیں بدن میں شعلے
جان لے لے گی یہ برسات قریب آ جاؤ
-
موضوع : سردی
کہاں کا وصل تنہائی نے شاید بھیس بدلا ہے
ترے دم بھر کے مل جانے کو ہم بھی کیا سمجھتے ہیں
-
موضوع : تنہائی
ہجر اک وقفۂ بیدار ہے دو نیندوں میں
وصل اک خواب ہے جس کی کوئی تعبیر نہیں
-
موضوعات : بیداراور 1 مزید