امید پر اشعار
امیدوں کی ایک دھند ہے
اورکچھ ایسا ہے جوصاف دکھتا بھی نہیں اورچھپتا بھی نہیں ۔ اسے کے سہارے زندگی چل رہی ہے ۔ سب کچھ ہاتھ سے چلے جانے کے بعد اگرکچھ بچتا ہے تووہ امید ہی ہے ۔ شاعری کے عاشق کے پاس بھی بس یہی ایک اثاثہ ہے ، وہ اسی کے سہارے زندہ ہے ۔ جو طویل رات وہ ہجر کے دکھوں میں گزاررہا ہے اس کی بھی اسے سحرنظرآتی ہے ۔ ہم یہ انتخاب اس لئے بھی پیش کررہے ہیں کہ یہ زندگی کے مشکل ترین وقتوں میں حوصلہ مندی کا استعارہ ہے ۔
دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
-
موضوعات : ترغیبیاور 4 مزید
نہ کوئی وعدہ نہ کوئی یقیں نہ کوئی امید
مگر ہمیں تو ترا انتظار کرنا تھا
-
موضوعات : انتظاراور 2 مزید
مرے جنوں کا نتیجہ ضرور نکلے گا
اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گا
-
موضوع : ترغیبی
ترے وعدوں پہ کہاں تک مرا دل فریب کھائے
کوئی ایسا کر بہانہ مری آس ٹوٹ جائے
یوں تو ہر شام امیدوں میں گزر جاتی ہے
آج کچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا
-
موضوعات : شاماور 4 مزید
اب تک دل خوش فہم کو تجھ سے ہیں امیدیں
یہ آخری شمعیں بھی بجھانے کے لیے آ
-
موضوعات : عشقاور 2 مزید
یہی ہے زندگی کچھ خواب چند امیدیں
انہیں کھلونوں سے تم بھی بہل سکو تو چلو
-
موضوعات : خواباور 1 مزید
اتنا بھی ناامید دل کم نظر نہ ہو
ممکن نہیں کہ شام الم کی سحر نہ ہو
آرزو حسرت اور امید شکایت آنسو
اک ترا ذکر تھا اور بیچ میں کیا کیا نکلا
-
موضوعات : آرزواور 3 مزید
ناامیدی موت سے کہتی ہے اپنا کام کر
آس کہتی ہے ٹھہر خط کا جواب آنے کو ہے
-
موضوعات : خطاور 2 مزید
سایہ ہے کم کھجور کے اونچے درخت کا
امید باندھئے نہ بڑے آدمی کے ساتھ
-
موضوعات : انساناور 1 مزید
خواب، امید، تمنائیں، تعلق، رشتے
جان لے لیتے ہیں آخر یہ سہارے سارے
-
موضوعات : آرزواور 3 مزید
ایک چراغ اور ایک کتاب اور ایک امید اثاثہ
اس کے بعد تو جو کچھ ہے وہ سب افسانہ ہے
-
موضوعات : چراغاور 1 مزید
شاخیں رہیں تو پھول بھی پتے بھی آئیں گے
یہ دن اگر برے ہیں تو اچھے بھی آئیں گے
اتنے مایوس تو حالات نہیں
لوگ کس واسطے گھبرائے ہیں
-
موضوع : حوصلہ
اب رات کی دیوار کو ڈھانا ہے ضروری
یہ کام مگر مجھ سے اکیلے نہیں ہوگا
کس سے امید کریں کوئی علاج دل کی
چارہ گر بھی تو بہت درد کا مارا نکلا
-
موضوعات : چارہ گراور 1 مزید
کچھ کٹی ہمت سوال میں عمر
کچھ امید جواب میں گزری
-
موضوع : سوال
موجوں کی سیاست سے مایوس نہ ہو فانیؔ
گرداب کی ہر تہہ میں ساحل نظر آتا ہے
تم کہاں وصل کہاں وصل کی امید کہاں
دل کے بہکانے کو اک بات بنا رکھی ہے
امید تو بندھ جاتی تسکین تو ہو جاتی
وعدہ نہ وفا کرتے وعدہ تو کیا ہوتا
-
موضوعات : وعدہاور 1 مزید
بس اب تو دامن دل چھوڑ دو بیکار امیدو
بہت دکھ سہہ لیے میں نے بہت دن جی لیا میں نے
انقلاب صبح کی کچھ کم نہیں یہ بھی دلیل
پتھروں کو دے رہے ہیں آئنے کھل کر جواب
-
موضوع : انقلاب
وہ امید کیا جس کی ہو انتہا
وہ وعدہ نہیں جو وفا ہو گیا
مجھ کو اوروں سے کچھ نہیں ہے کام
تجھ سے ہر دم امیدواری ہے
پھر مری آس بڑھا کر مجھے مایوس نہ کر
حاصل غم کو خدا را غم حاصل نہ بنا
رکھ نہ آنسو سے وصل کی امید
کھارے پانی سے دال گلتی نہیں
بچھڑ کے تجھ سے مجھے ہے امید ملنے کی
سنا ہے روح کو آنا ہے پھر بدن کی طرف
امید و بیم کے محور سے ہٹ کے دیکھتے ہیں
ذرا سی دیر کو دنیا سے کٹ کے دیکھتے ہیں
-
موضوع : دنیا
اسی امید پر تو جی رہے ہیں ہجر کے مارے
کبھی تو رخ سے اٹھے گی نقاب آہستہ آہستہ
-
موضوع : نقاب
پوری ہوتی ہیں تصور میں امیدیں کیا کیا
دل میں سب کچھ ہے مگر پیش نظر کچھ بھی نہیں
نئی نسلوں کے ہاتھوں میں بھی تابندہ رہے گا
میں مل جاؤں گا مٹی میں قلم زندہ رہے گا
ترک امید بس کی بات نہیں
ورنہ امید کب بر آئی ہے
آثار رہائی ہیں یہ دل بول رہا ہے
صیاد ستم گر مرے پر کھول رہا ہے
یوں رات گئے کس کو صدا دیتے ہیں اکثر
وہ کون ہمارا تھا جو واپس نہیں آیہ
کھیت جل تھل کر دئے سیلاب نے
مر گئے ارمان سب دہقان کے