تصور پر اشعار
شاعری میں تصورایک بڑی
طاقت کےطور پرابھرتا ہے ۔ ہرطرح کی مایوسی اورمحرومی کے باوجود عاشق کیلئے جوایک سہارا بچتا ہے وہ تصورہی ہے ۔ عاشق کیلئے معشوق سےبات چیت اوراس کا وصل اسی تصورکےسہارے ممکن ہے ۔ یوں بھی ہر شخص وہ تخلیق کارہویا عام آدمی دو دنیاؤں میں ہی جیتاہےایک تووہ دنیا جواس کےآس پاس پھیلی ہوئی سفاک دنیا ہے اوردوسری وہ دنیا جسے وہ اپنے تصور کے سہارے بسائے ہوئے ہے ۔ یہی اس کی طاقت ہے ۔ ہم نےکچھ ایسےشعروں کواکٹھا کیا ہے جن میں تصورکی مختلف صورتوں کا اظہار ہے ۔
ان کا غم ان کا تصور ان کے شکوے اب کہاں
اب تو یہ باتیں بھی اے دل ہو گئیں آئی گئی
-
موضوعات : اداسیاور 5 مزید
ہاں دکھا دے اے تصور پھر وہ صبح و شام تو
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو
محو ہوں اس قدر تصور میں
شک یہ ہوتا ہے میں ہوں یا تو ہے
پھر نظر میں پھول مہکے دل میں پھر شمعیں جلیں
پھر تصور نے لیا اس بزم میں جانے کا نام
یہاں تو پیک تصور سے کام چلتا ہے
صبا نہیں نہ سہی نامہ بر نہیں نہ سہی
جانے کیوں اک خیال سا آیا
میں نہ ہوں گا تو کیا کمی ہوگی
-
موضوع : موت
دنیائے تصور ہم آباد نہیں کرتے
یاد آتے ہو تم خود ہی ہم یاد نہیں کرتے
-
موضوع : یاد
اک تری یاد سے اک تیرے تصور سے ہمیں
آ گئے یاد کئی نام حسیناؤں کے
یوں تری یاد میں دن رات مگن رہتا ہوں
دل دھڑکنا ترے قدموں کی صدا لگتا ہے
-
موضوعات : روماناور 3 مزید
میں جب بھی اس کے خیالوں میں کھو سا جاتا ہوں
وہ خود بھی بات کرے تو برا لگے ہے مجھے
میں کہ تیرے دھیان میں گم تھا
دنیا مجھ کو ڈھونڈھ رہی تھی
ہیں تصور میں اس کے آنکھیں بند
لوگ جانیں ہیں خواب کرتا ہوں
خفا ہیں پھر بھی آ کر چھیڑ جاتے ہیں تصور میں
ہمارے حال پر کچھ مہربانی اب بھی ہوتی ہے
-
موضوع : خفا
تصور زلف کا ہے اور میں ہوں
بلا کا سامنا ہے اور میں ہوں
یاد میں خواب میں تصور میں
آ کہ آنے کے ہیں ہزار طریق
-
موضوعات : خواباور 1 مزید
میں اک تھکا ہوا انسان اور کیا کرتا
طرح طرح کے تصور خدا سے باندھ لیے
ان کا غم ان کا تصور ان کی یاد
کٹ رہی ہے زندگی آرام سے
بچھڑ کر اس سے سیکھا ہے تصور کو بدن کرنا
اکیلے میں اسے چھونا اکیلے میں سخن کرنا
ہم ہیں اس کے خیال کی تصویر
جس کی تصویر ہے خیال اپنا
-
موضوع : تصویر
لب خیال سے اس لب کا جو لیا بوسہ
تو منہ ہی منہ میں عجب طرح کا مزا آیا
بناتا ہوں میں تصور میں اس کا چہرہ مگر
ہر ایک بار نئی کائنات بنتی ہے
-
موضوع : صورت
تیرے خیال کے دیوار و در بناتے ہیں
ہم اپنے گھر میں بھی تیرا ہی گھر بناتے ہیں
پوری ہوتی ہیں تصور میں امیدیں کیا کیا
دل میں سب کچھ ہے مگر پیش نظر کچھ بھی نہیں
اس قدر محو تصور ہوں کہ شک ہوتا ہے
آئینے میں مری صورت ہے کہ صورت تیری
کچھ تو ملتا ہے مزہ سا شب تنہائی میں
پر یہ معلوم نہیں کس سے ہم آغوش ہوں میں
جو تصور سے ماورا نہ ہوا
وہ تو بندہ ہوا خدا نہ ہوا
نہ ہوگا کوئی مجھ سا محو تصور
جسے دیکھتا ہوں سمجھتا ہوں تو ہے
تصور میں بھی اب وہ بے نقاب آتے نہیں مجھ تک
قیامت آ چکی ہے لوگ کہتے ہیں شباب آیا
رات بھر ان کا تصور دل کو تڑپاتا رہا
ایک نقشہ سامنے آتا رہا جاتا رہا
جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کہ رات دن
بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے
-
موضوعات : فلمی اشعاراور 1 مزید
میرے پہلو میں تم آؤ یہ کہاں میرے نصیب
یہ بھی کیا کم ہے تصور میں تو آ جاتے ہو
کھل نہیں سکتی ہیں اب آنکھیں مری
جی میں یہ کس کا تصور آ گیا
دیکھوں ہوں تجھ کو دور سے بیٹھا ہزار کوس
عینک نہ چاہئے نہ یہاں دوربیں مجھے
یوں برستی ہیں تصور میں پرانی یادیں
جیسے برسات کی رم جھم میں سماں ہوتا ہے
ہے آباد میرے تصور کی دنیا
حسیں آ رہے ہیں حسیں جا رہے ہیں
جوش جنوں میں لطف تصور نہ پوچھیے
پھرتے ہیں ساتھ ساتھ انہیں ہم لیے ہوئے
میں نے تو تصور میں اور عکس دیکھا تھا
فکر مختلف کیوں ہے شاعری کے پیکر میں
چاہیئے اس کا تصور ہی سے نقشہ کھینچنا
دیکھ کر تصویر کو تصویر پھر کھینچی تو کیا
-
موضوع : تصویر