Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

خفا پر اشعار

خفا ہونا اور ایک دوسرے

سے ناراض ہونا زندگی میں ایک عام سا عمل ہے لیکن شاعری میں خفگی کی جتنی صورتیں ہیں وہ عاشق اور معشوق کے درمیان کی ہیں ۔ شاعری میں خفا ہونے ، ناراض ہونے اور پھر راضی ہوجانے کا جو ایک دلچسپ کھیل ہے اس کی چند تصویریں ہم اس انتخاب میں آپ کے سامنے پیش کر رہے ہیں ۔

میں اپنے آپ سے ہر دم خفا رہتا ہوں یوں آزرؔ

پرانی دشمنی ہو جس طرح دو خاندانوں میں

کفیل آزر امروہوی

یا وہ تھے خفا ہم سے یا ہم ہیں خفا ان سے

کل ان کا زمانہ تھا آج اپنا زمانا ہے

جگر مراد آبادی

لائی ہے کہاں مجھ کو طبیعت کی دو رنگی

دنیا کا طلب گار بھی دنیا سے خفا بھی

مدحت الاختر

چھیڑ مت ہر دم نہ آئینہ دکھا

اپنی صورت سے خفا بیٹھے ہیں ہم

مصحفی غلام ہمدانی

حسن یوں عشق سے ناراض ہے اب

پھول خوشبو سے خفا ہو جیسے

افتخار اعظمی

چھیڑا ہے دست شوق نے مجھ سے خفا ہیں وہ

گویا کہ اپنے دل پہ مجھے اختیار ہے

حسرتؔ موہانی

اتنا تو بتا جاؤ خفا ہونے سے پہلے

وہ کیا کریں جو تم سے خفا ہو نہیں سکتے

اسد بھوپالی

خفا ہیں پھر بھی آ کر چھیڑ جاتے ہیں تصور میں

ہمارے حال پر کچھ مہربانی اب بھی ہوتی ہے

اختر شیرانی

آج پھر خود سے خفا ہوں تو یہی کرتا ہوں

آج پھر خود سے کوئی بات نہیں کرتا میں

ترکش پردیپ

میری بیتابیوں سے گھبرا کر

کوئی مجھ سے خفا نہ ہو جائے

علیم اختر مظفر نگری

یہ جو راتوں کو مجھے خواب نہیں آتے عطاؔ

اس کا مطلب ہے مرا یار خفا ہے مجھ سے

احمد عطا

کسی معشوق کا عاشق سے خفا ہو جانا

روح کا جسم سے گویا ہے جدا ہو جانا

احسن مارہروی

عشق میں تہذیب کے ہیں اور ہی کچھ فلسفے

تجھ سے ہو کر ہم خفا خود سے خفا رہنے لگے

عالم خورشید

وہ خوش ہو کے مجھ سے خفا ہو گیا

مجھے کیا امیدیں تھیں کیا ہو گیا

جگت موہن لال رواں

خفا دیکھا ہے اس کو خواب میں دل سخت مضطر ہے

کھلا دے دیکھیے کیا کیا گل تعبیر خواب اپنا

نظیر اکبرآبادی

مل بھی جاؤ یوں ہی تم بہر خدا آپ سے آپ

جس طرح ہو گئے ہو ہم سے خفا آپ سے آپ

لالہ مادھو رام جوہر

یہی حالات ابتدا سے رہے

لوگ ہم سے خفا خفا سے رہے

جاوید اختر

اک تیری بے رخی سے زمانہ خفا ہوا

اے سنگ دل تجھے بھی خبر ہے کہ کیا ہوا

عرش صدیقی

کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم

تو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لیے آ

احمد فراز

تجھ سے برہم ہوں کبھی خود سے خفا

کچھ عجب رفتار ہے تیرے بغیر

شکیل بدایونی

یا خفا ہوتے تھے ہم تو منتیں کرتے تھے آپ

یا خفا ہیں ہم سے وہ اور ہم منا سکتے نہیں

مرزا محمد تقی ہوسؔ

مجھ سے بگڑ گئے تو رقیبوں کی بن گئی

غیروں میں بٹ رہا ہے مرا اعتبار آج

احمد حسین مائل

خدا سے لوگ بھی خائف کبھی تھے

مگر لوگوں سے اب خائف خدا ہے

نریش کمار شاد

لوگ کہتے ہیں کہ تو اب بھی خفا ہے مجھ سے

تیری آنکھوں نے تو کچھ اور کہا ہے مجھ سے

جاں نثار اختر

جانے کیوں ان سے ملتے رہتے ہیں

خوش وہ کیا ہوں گے جب خفا ہی نہیں

باقر مہدی

جس کی ہوس کے واسطے دنیا ہوئی عزیز

واپس ہوئے تو اس کی محبت خفا ملی

ساقی فاروقی

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے