برہم پر اشعار

زندگی سے زندگی روٹھی رہی

آدمی سے آدمی برہم رہا

بقا بلوچ

نہ ہو برہم جو بوسہ بے اجازت لے لیا میں نے

چلو جانے دو بیتابی میں ایسا ہو ہی جاتا ہے

جلالؔ لکھنوی

تجھ سے برہم ہوں کبھی خود سے خفا

کچھ عجب رفتار ہے تیرے بغیر

شکیل بدایونی

گلہ مجھ سے تھا یا میری وفا سے

مری محفل سے کیوں برہم گئے وہ

آتش بہاولپوری

ادھر آ ہم دکھاتے ہیں غزل کا آئنہ تجھ کو

یہ کس نے کہہ دیا گیسو ترے برہم نہیں پیارے

کلیم عاجز

کچھ تو حساس ہم زیادہ ہیں

کچھ وہ برہم زیادہ ہوتا ہے

باصر سلطان کاظمی

ہماری زندگی کہنے کی حد تک زندگی ہے بس

یہ شیرازہ بھی دیکھا جائے تو برہم ہے برسوں سے

وقار مانوی

برہم ہیں مجھ پہ اس لیے دونوں طرف کے لوگ

دیوار اٹھ گئی تھی تو در کیوں بنایا ہے

انجم سلیمی

اسی پہ شہر کی ساری ہوائیں برہم تھیں

کہ اک دیا مرے گھر کی منڈیر پر بھی تھا

یوسف حسن

تمام انجمن وعظ ہو گئی برہم

لئے ہوئے کوئی یوں ساغر شراب آیا

عزیز لکھنوی

ہم نشیں دیکھی نحوست داستان ہجر کی

صحبتیں جمنے نہ پائی تھیں کہ برہم ہو گئیں

مرزا ہادی رسوا

Jashn-e-Rekhta | 2-3-4 December 2022 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate, New Delhi

GET YOUR FREE PASS
بولیے