Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دریا پر اشعار

دریا کا استعمال کلاسیکی

شاعری میں کم کم ہے اور اگر ہے بھی تو دریا اپنے سیدھے اور سامنے کے معنی میں برتا گیا ہے ۔ البتہ جدید شاعروں کے یہاں دریا ایک کثیرالجہات استعارے طور پر آیا ہے ۔ وہ کبھی زندگی میں سفاکی کی علامت کے طور پر اختیار کیا گیا ہے کہ جو اس کے سامنے آتا ہے اسے بہا لے جاتا اور کبھی اس کی روانی کو زندگی کی حرکت اور اس کی توانائی کے استعارے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے ۔ دریا پر ہمارا یہ شعری انتخاب آپ کو یقیناً پسند آئے گا ۔

کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا

میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا

احمد ندیم قاسمی

بہت غرور ہے دریا کو اپنے ہونے پر

جو میری پیاس سے الجھے تو دھجیاں اڑ جائیں

راحت اندوری

چاند بھی حیران دریا بھی پریشانی میں ہے

عکس کس کا ہے کہ اتنی روشنی پانی میں ہے

فرحت احساس

اگر فرصت ملے پانی کی تحریروں کو پڑھ لینا

ہر اک دریا ہزاروں سال کا افسانہ لکھتا ہے

بشیر بدر

شکوہ کوئی دریا کی روانی سے نہیں ہے

رشتہ ہی مری پیاس کا پانی سے نہیں ہے

شہریار

تم اس کے پاس ہو جس کو تمہاری چاہ نہ تھی

کہاں پہ پیاس تھی دریا کہاں بنایا گیا

یاسر خان انعام

گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا

لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا

قتیل شفائی

میں کشتی میں اکیلا تو نہیں ہوں

مرے ہم راہ دریا جا رہا ہے

احمد ندیم قاسمی

آج پھر مجھ سے کہا دریا نے

کیا ارادہ ہے بہا لے جاؤں

محمد علوی

سفر میں کوئی کسی کے لیے ٹھہرتا نہیں

نہ مڑ کے دیکھا کبھی ساحلوں کو دریا نے

فارغ بخاری

پیاس بڑھتی جا رہی ہے بہتا دریا دیکھ کر

بھاگتی جاتی ہیں لہریں یہ تماشا دیکھ کر

ساقی فاروقی

ہم کو بھی خوش نما نظر آئی ہے زندگی

جیسے سراب دور سے دریا دکھائی دے

محشر بدایونی

دریا کے تلاطم سے تو بچ سکتی ہے کشتی

کشتی میں تلاطم ہو تو ساحل نہ ملے گا

ملک زادہ منظور احمد

تشنہ لب ایسا کہ ہونٹوں پہ پڑے ہیں چھالے

مطمئن ایسا ہوں دریا کو بھی حیرانی ہے

قمر عباس قمر

چلی ہے موج میں کاغذ کی کشتی

اسے دریا کا اندازہ نہیں ہے

سلیم احمد

کٹی ہوئی ہے زمیں کوہ سے سمندر تک

ملا ہے گھاؤ یہ دریا کو راستہ دے کر

عدیم ہاشمی

دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام

کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے

الطاف حسین حالی

ساحل پہ لوگ یوں ہی کھڑے دیکھتے رہے

دریا میں ہم جو اترے تو دریا اتر گیا

عبد اللہ جاوید

کمال تشنگی ہی سے بجھا لیتے ہیں پیاس اپنی

اسی تپتے ہوئے صحرا کو ہم دریا سمجھتے ہیں

جگر مراد آبادی

بند ہو جاتا ہے کوزے میں کبھی دریا بھی

اور کبھی قطرہ سمندر میں بدل جاتا ہے

فریاد آزر

دو دریا بھی جب آپس میں ملتے ہیں

دونوں اپنی اپنی پیاس بجھاتے ہیں

فارغ بخاری

دریاؤں کی نذر ہوئے

دھیرے دھیرے سب تیراک

آشفتہ چنگیزی

دریا کو کنارے سے کیا دیکھتے رہتے ہو

اندر سے کبھی دیکھو کیسا نظر آتا ہے

انعام ندیمؔ

گاؤں سے گزرے گا اور مٹی کے گھر لے جائے گا

ایک دن دریا سبھی دیوار و در لے جائے گا

جمنا پرشاد راہیؔ

ایک دریا پار کر کے آ گیا ہوں اس کے پاس

ایک صحرا کے سوا اب درمیاں کوئی نہیں

حسن نعیم

عجب نہیں کہ یہ دریا نظر کا دھوکا ہو

عجب نہیں کہ کوئی راستہ نکل آئے

عرفان صدیقی

اپنے سوا نہیں ہے کوئی اپنا آشنا

دریا کی طرح آپ ہیں اپنے کنار میں

گویا فقیر محمد

دریا دکھائی دیتا ہے ہر ایک ریگ زار

شاید کہ ان دنوں مجھے شدت کی پیاس ہے

والی آسی

اگر روتے نہ ہم تو دیکھتے تم

جہاں میں ناؤ کو دریا نہ ہوتا

شیخ ظہور الدین حاتم

غرور تشنہ دہانی تری بقا کی قسم

ندی ہمارے لبوں کی طرف اچھلتی رہی

عدنان محسن

میرے عناصر خاک نہ ہوں بس رنگ بنیں

اور جنگل صحرا دریا پر برسے رنگ

سوپنل تیواری

اس کے ٹھہراؤ سے تھم جاتی ہے سب موج حیات

یعنی دریا میں نہیں سانس میں گہرائی ہے

قمر عباس قمر

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے