Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شہر پر اشعار

شہر کی زندگی نئے اور

ترقی یافتہ زمانے کا ایک خوبصورت عذاب ہے ۔ جس کی چکاچوند سے دھوکا کھاکر لوگ اس میں پھنس تو گئے لیکن ان کے ذہنی اورجذباتی رشتے آج بھی اپنے ماضی سے جڑے ہیں ۔ وہ اس بھرے پرے شہر میں پسری ہوئی تنہائی سے نالاں ہیں اور اس کی مشینی اخلاقیات سے شاکی ۔ یہ دکھ ہم سب کا دکھ ہے اس لئے اس شاعری کو ہم اپنے جذبات اور احساسات سے زیادہ قریب پائیں گے ۔

اک اور کھیت پکی سڑک نے نگل لیا

اک اور گاؤں شہر کی وسعت میں کھو گیا

خالد صدیقی

دوستو تم سے گزارش ہے یہاں مت آؤ

اس بڑے شہر میں تنہائی بھی مر جاتی ہے

جاوید ناصر

ایسا ہنگامہ نہ تھا جنگل میں

شہر میں آئے تو ڈر لگتا تھا

محمد علوی

جو میرے گاؤں کے کھیتوں میں بھوک اگنے لگی

مرے کسانوں نے شہروں میں نوکری کر لی

عارف شفیق

دل تو میرا اداس ہے ناصرؔ

شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے

ناصر کاظمی

بھیڑ کے خوف سے پھر گھر کی طرف لوٹ آیا

گھر سے جب شہر میں تنہائی کے ڈر سے نکلا

علیم مسرور

تمام رات نہایا تھا شہر بارش میں

وہ رنگ اتر ہی گئے جو اترنے والے تھے

جمال احسانی

حسیں ہے شہر تو عجلت میں کیوں گزر جائیں

جنون شوق اسے بھی نہال کر جائیں

دل ایوبی

اتنا دل نعیمؔ کو ویراں نہ کر حجاز

روئے گی موج گنگ جو اس تک خبر گئی

حسن نعیم

ہم ایک شہر میں تھے اک ندی کی دوری پر

اور اس ندی میں کوئی اور وقت بہتا تھا

احتشام علی

تم بھی اس شہر میں بن جاؤ گے پتھر جیسے

ہنسنے والا یہاں کوئی ہے نہ رونے والا

کیلاش ماہر

اے مظفر کس لئے بھوپال یاد آنے لگا

کیا سمجھتے تھے کہ دلی میں نہ ہوگا آسماں

مظفر حنفی

مجنوں سے یہ کہنا کہ مرے شہر میں آ جائے

وحشت کے لیے ایک بیابان ابھی ہے

قمر عباس قمر

کیسا ہنگامہ بپا ہے کہ مرے شہر کے لوگ

خامشی ڈھونڈھنے غاروں کی طرف جاتے ہوئے

سالم سلیم

اب شہر آرزو میں وہ رعنائیاں کہاں

ہیں گل کدے نڈھال بڑی تیز دھوپ ہے

ساغر صدیقی

یوں بھی دلی میں لوگ رہتے ہیں

جیسے دیوان میر چاک‌ شدہ

مظفر حنفی

یہ دل فریب چراغاں یہ قہقہوں کے ہجوم

میں ڈر رہا ہوں اب اس شہر سے گزرتے ہوئے

سلمان خیال

کچھ بھی ہوں دلی کے کوچے

تجھ بن مجھ کو گھر کاٹے گا

مظفر حنفی

سنا ہے شہر کا نقشہ بدل گیا محفوظؔ

تو چل کے ہم بھی ذرا اپنے گھر کو دیکھتے ہیں

احمد محفوظ

شہر کا بھی دستور وہی جنگل والا

کھوجنے والے ہی اکثر کھو جاتے ہیں

خالد عبادی

دل سے دور ہوئے جاتے ہیں غالب کے کلکتے والے

گوہاٹی میں دیکھے ہم نے ایسے ایسے چہرے والے

مظہر امام

عزمؔ اس شہر میں اب ایسی کوئی آنکھ نہیں

گرنے والے کو یہاں جس نے سنبھلتے دیکھا

عزم بہزاد

ہے عجیب شہر کی زندگی نہ سفر رہا نہ قیام ہے

کہیں کاروبار سی دوپہر کہیں بد مزاج سی شام ہے

بشیر بدر

میرے ہی سنگ و خشت سے تعمیر بام و در

میرے ہی گھر کو شہر میں شامل کہا نہ جائے

مجروح سلطانپوری

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے