دہلی پر اشعار
شاعروں نے دلی کو عالم
میں انتخاب ایک شہر بھی باندھا ہے اور بھی طرح طرح سے اس کے قصیدے پڑھے گئے ہیں لیکن تاریخ میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب اس شہر کی ساری رونقیں ختم کر دی گئیں ، اس کے گلی کوچے ویران ہو گئے اور اس کی ادبی وتہذیبی مرکزیت ختم ہوگئی، بے حالی کے عالم میں لوگ یہاں سے ہجرت کر گئے اور پورے شہر پر ایک مردمی چھا گئی۔ اس صورتحال نے سب سے زیادہ گہرا اور دیر پا اثر تخلیق کاروں پر چھوڑا ۔ شاعروں نے دلی کو موضوع بنا کر جو شعر کہے وہ بیشتر دلی کی اس صورتحال کا نوحہ ہیں ۔
مرثیے دل کے کئی کہہ کے دئیے لوگوں کو
شہر دلی میں ہے سب پاس نشانی اس کی
جناب کیفؔ یہ دلی ہے میرؔ و غالبؔ کی
یہاں کسی کی طرف داریاں نہیں چلتیں
اے صبا میں بھی تھا آشفتہ سروں میں یکتا
پوچھنا دلی کی گلیوں سے مرا نام کبھی
تذکرہ دہلی مرحوم کا اے دوست نہ چھیڑ
نہ سنا جائے گا ہم سے یہ فسانہ ہرگز
ان دنوں گرچہ دکن میں ہے بڑی قدر سخن
کون جائے ذوقؔ پر دلی کی گلیاں چھوڑ کر
امیر زادوں سے دلی کے مل نہ تا مقدور
کہ ہم فقیر ہوئے ہیں انہیں کی دولت سے
تشریح
امیر یعنی سردار، حاکم، دولت مند۔ غریب یعنی مفلس، بے وطن۔ دولت یعنی دھن، مال، اقبال، نصیب، سلطنت، حکومت، فتح، خوشی، اولاد۔میر کا یہ شعر انسلاکات کی وجہ سے دلچسپ بھی ہے اور عجیب بھی۔ اس شعر میں میرؔ نے مناسبتوں سے خوب مضمون پیدا کیا ہے۔ اس کے تلازمات میں امیر زادوں ، غریب اور دولت بہت معنی خیز ہیں اور پھر ان کی مناسبت دلّی سے بھی خوب ہے۔ میرؔ خود سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ دلّی کے امیر زادوں کی صحبت سے پرہیز کرو کیونکہ ہم ان ہی دولت سے غریب ہوئے ہیں۔ اگر دولت کو محض دھن اور مال کے معنوں میں لیا جائے تو شعر کے معنی یہ بنتے ہیں کہ میرؔ دلّی کے امیر زادوں سے دور رہو کیونکہ ہم ان ہی کے مال و زر سے غریب ہوئے ہیں۔ مگر میر ؔ جس قدر سہل پسند تھے اسی قدر ان کے اشعار میں پیچیدگی اور تہہ داری بھی ہے۔ دراصل میر کا کہنا یہ ہے کہ چونکہ دلّی کے امیر زادوں کے نصیب اور ان کے اقبال کی وجہ سے خدا ان پر مہربان ہے اور خدا ان کو دولت سے مالا مال کرنا چاہتا ہے اس لئے ہمارے حصے کی دولت بھی ان کو عطا کی جس کی وجہ سے ہم مفلس ہوگئے۔ اگر مارکسزم کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو میر یہ کہتے ہیں کہ چونکہ دلّی کے امیر مادیت پرست ہیں اور دولت جمع کرنے کے لئے کوئی حربہ نہیں چھوڑتے اس لئے انہوں نے ہماری دولت ہم سے لوٹ کر ہمیں غریب بنا دیا ہے۔
شفق سوپوری
لیلیٰ گھر میں سلائی کرنے لگی
قیس دلی میں کام کرنے لگا
دلی چھٹی تھی پہلے اب لکھنؤ بھی چھوڑیں
دو شہر تھے یہ اپنے دونوں تباہ نکلے
اے مظفر کس لئے بھوپال یاد آنے لگا
کیا سمجھتے تھے کہ دلی میں نہ ہوگا آسماں
چہرے پہ سارے شہر کے گرد ملال ہے
جو دل کا حال ہے وہی دلی کا حال ہے
-
موضوعات : پارلیمنٹاور 1 مزید
دلی کے نہ تھے کوچے اوراق مصور تھے
جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی
-
موضوع : تصویر
دلی کہاں گئیں ترے کوچوں کی رونقیں
گلیوں سے سر جھکا کے گزرنے لگا ہوں میں
دل لگی کے واسطے دہلی میں ہے مٹیا محل
کون جاوے خاک اڑانے ملک بیکانیر کو
دلی ہوئی ہے ویراں سونے کھنڈر پڑے ہیں
ویران ہیں محلے سنسان گھر پڑے ہیں
یوں بھی دلی میں لوگ رہتے ہیں
جیسے دیوان میر چاک شدہ
دلی میں آج بھیک بھی ملتی نہیں انہیں
تھا کل تلک دماغ جنہیں تاج و تخت کا
-
موضوع : وقت
کچھ بھی ہوں دلی کے کوچے
تجھ بن مجھ کو گھر کاٹے گا
دلی میں اپنا تھا جو کچھ اسباب رہ گیا
اک دل کو لے کے آئے ہیں اس سرزمیں سے ہم
دل ربا تجھ سا جو دل لینے میں عیاری کرے
پھر کوئی دلی میں کیا دل کی خبرداری کرے
اے وائے انقلاب زمانے کے جور سے
دلی ظفرؔ کے ہاتھ سے پل میں نکل گئی
دلی پہ رونا آتا ہے کرتا ہوں جب نگاہ
میں اس کہن خرابے کی تعمیر کی طرف
ہمیں ہیں موجب باب فصاحت حضرت شاعرؔ
زمانہ سیکھتا ہے ہم سے ہم وہ دلی والے ہیں
ارض دکن میں جان تو دلی میں دل بنی
اور شہر لکھنؤ میں حنا بن گئی غزل
کیوں متاع دل کے لٹ جانے کا کوئی غم کرے
شہر دلی میں تو ایسے واقعے ہوتے رہے