خاموشی پر اشعار

خاموشی کو موضوع بنانے

والے ان شعروں میں آپ خاموشی کا شور سنیں گے اور دیکھیں گے کہ الفاظ کے بے معنی ہوجانے کے بعد خاموشی کس طرح کلام کرتی ہے ۔ ہم نے خاموشی پر بہترین شاعری کا انتخاب کیا ہے اسے پڑھئے اور خاموشی کی زبان سے آگاہی حاصل کیجیے ۔

مستقل بولتا ہی رہتا ہوں

کتنا خاموش ہوں میں اندر سے

جون ایلیا

ہم لبوں سے کہہ نہ پائے ان سے حال دل کبھی

اور وہ سمجھے نہیں یہ خامشی کیا چیز ہے

ندا فاضلی

آپ نے تصویر بھیجی میں نے دیکھی غور سے

ہر ادا اچھی خموشی کی ادا اچھی نہیں

جلیل مانک پوری

علم کی ابتدا ہے ہنگامہ

علم کی انتہا ہے خاموشی

فردوس گیاوی

خموشی سے مصیبت اور بھی سنگین ہوتی ہے

تڑپ اے دل تڑپنے سے ذرا تسکین ہوتی ہے

شاد عظیم آبادی

اسے بے چین کر جاؤں گا میں بھی

خموشی سے گزر جاؤں گا میں بھی

امیر قزلباش

بولتے کیوں نہیں مرے حق میں

آبلے پڑ گئے زبان میں کیا

جون ایلیا

خموشی سے ادا ہو رسم دوری

کوئی ہنگامہ برپا کیوں کریں ہم

جون ایلیا

چپ چاپ اپنی آگ میں جلتے رہو فرازؔ

دنیا تو عرض حال سے بے آبرو کرے

احمد فراز

محبت سوز بھی ہے ساز بھی ہے

خموشی بھی ہے یہ آواز بھی ہے

عرش ملسیانی

میری خاموشیوں میں لرزاں ہے

میرے نالوں کی گم شدہ آواز

فیض احمد فیض

دور خاموش بیٹھا رہتا ہوں

اس طرح حال دل کا کہتا ہوں

آبرو شاہ مبارک

چپ رہو تو پوچھتا ہے خیر ہے

لو خموشی بھی شکایت ہو گئی

اختر انصاری اکبرآبادی

جو چپ رہا تو وہ سمجھے گا بد گمان مجھے

برا بھلا ہی سہی کچھ تو بول آؤں میں

افتخار امام صدیقی

چپ چپ کیوں رہتے ہو ناصرؔ

یہ کیا روگ لگا رکھا ہے

ناصر کاظمی

ہر طرف تھی خاموشی اور ایسی خاموشی

رات اپنے سائے سے ہم بھی ڈر کے روئے تھے

بھارت بھوشن پنت

زور قسمت پہ چل نہیں سکتا

خامشی اختیار کرتا ہوں

عزیز حیدرآبادی

مری خاموشیوں پر دنیا مجھ کو طعن دیتی ہے

یہ کیا جانے کہ چپ رہ کر بھی کی جاتی ہیں تقریریں

سیماب اکبرآبادی

باقیؔ جو چپ رہوگے تو اٹھیں گی انگلیاں

ہے بولنا بھی رسم جہاں بولتے رہو

باقی صدیقی

خموشی میری معنی خیز تھی اے آرزو کتنی

کہ جس نے جیسا چاہا ویسا افسانہ بنا ڈالا

آرزو لکھنوی

اثر بھی لے رہا ہوں تیری چپ کا

تجھے قائل بھی کرتا جا رہا ہوں

فراق گورکھپوری

نکالے گئے اس کے معنی ہزار

عجب چیز تھی اک مری خامشی

خلیل الرحمن اعظمی

خاموشی میں چاہے جتنا بیگانہ پن ہو

لیکن اک آہٹ جانی پہچانی ہوتی ہے

بھارت بھوشن پنت

خامشی تیری مری جان لیے لیتی ہے

اپنی تصویر سے باہر تجھے آنا ہوگا

محمد علی ساحل

خموش رہنے کی عادت بھی مار دیتی ہے

تمہیں یہ زہر تو اندر سے چاٹ جائے گا

عابد خورشید

چٹخ کے ٹوٹ گئی ہے تو بن گئی آواز

جو میرے سینہ میں اک روز خامشی ہوئی تھی

سالم سلیم

ہر ایک بات زباں سے کہی نہیں جاتی

جو چپکے بیٹھے ہیں کچھ ان کی بات بھی سمجھو

محشر عنایتی

ہم نے اول تو کبھی اس کو پکارا ہی نہیں

اور پکارا تو پکارا بھی صداؤں کے بغیر

احمد عطا

چھیڑ کر جیسے گزر جاتی ہے دوشیزہ ہوا

دیر سے خاموش ہے گہرا سمندر اور میں

زیب غوری

سبب خاموشیوں کا میں نہیں تھا

مرے گھر میں سبھی کم بولتے تھے

بھارت بھوشن پنت

میں تیرے کہے سے چپ ہوں لیکن

چپ بھی تو بیان مدعا ہے

احمد ندیم قاسمی

رنگ درکار تھے ہم کو تری خاموشی کے

ایک آواز کی تصویر بنانی تھی ہمیں

ناظر وحید

کچھ کہنے کا وقت نہیں یہ کچھ نہ کہو خاموش رہو

اے لوگو خاموش رہو ہاں اے لوگو خاموش رہو

ابن انشا

بہت گہری ہے اس کی خامشی بھی

میں اپنے قد کو چھوٹا پا رہی ہوں

فاطمہ حسن

بول پڑتا تو مری بات مری ہی رہتی

خامشی نے ہیں دئے سب کو فسانے کیا کیا

اجمل صدیقی

جو سنتا ہوں سنتا ہوں میں اپنی خموشی سے

جو کہتی ہے کہتی ہے مجھ سے مری خاموشی

بیدم شاہ وارثی

میں چپ رہا کہ وضاحت سے بات بڑھ جاتی

ہزار شیوۂ حسن بیاں کے ہوتے ہوئے

افتخار عارف

جسے صیاد نے کچھ گل نے کچھ بلبل نے کچھ سمجھا

چمن میں کتنی معنی خیز تھی اک خامشی مری

جگر مراد آبادی

خموشی میں ہر بات بن جائے ہے

جو بولے ہے دیوانہ کہلائے ہے

کلیم عاجز

خامشی چھیڑ رہی ہے کوئی نوحہ اپنا

ٹوٹتا جاتا ہے آواز سے رشتہ اپنا

ساقی فاروقی

کھلی زبان تو ظرف ان کا ہو گیا ظاہر

ہزار بھید چھپا رکھے تھے خموشی میں

انور سدید

یہ حاصل ہے مری خاموشیوں کا

کہ پتھر آزمانے لگ گئے ہیں

مدن موہن دانش

میں ہوں رات کا ایک بجا ہے

خالی رستہ بول رہا ہے

ناصر کاظمی

ایک دن میری خامشی نے مجھے

لفظ کی اوٹ سے اشارہ کیا

انجم سلیمی

سنتی رہی میں سب کے دکھ خاموشی سے

کس کا دکھ تھا میرے جیسا بھول گئی

فاطمہ حسن

مجھے تو ہوش نہ تھا ان کی بزم میں لیکن

خموشیوں نے میری ان سے کچھ کلام کیا

بہزاد لکھنوی

وہ بولتا تھا مگر لب نہیں ہلاتا تھا

اشارہ کرتا تھا جنبش نہ تھی اشارے میں

اقبال ساجد

عجیب شور مچانے لگے ہیں سناٹے

یہ کس طرح کی خموشی ہر اک صدا میں ہے

عاصم واسطی

ہم نہ مانیں گے خموشی ہے تمنا کا مزاج

ہاں بھری بزم میں وہ بول نہ پائی ہوگی

کالی داس گپتا رضا

صوت کیا شے ہے خامشی کیا ہے

غم کسے کہتے ہیں خوشی کیا ہے

فرحت شہزاد

Jashn-e-Rekhta | 2-3-4 December 2022 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate, New Delhi

GET YOUR FREE PASS
بولیے