آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے
محبت سوز بھی ہے ساز بھی ہے
خموشی بھی ہے یہ آواز بھی ہے
-
موضوعات : خاموشیاور 2 مزید
وہ خوش کلام ہے ایسا کہ اس کے پاس ہمیں
طویل رہنا بھی لگتا ہے مختصر رہنا
-
موضوعات : حسناور 1 مزید
خدا کی اس کے گلے میں عجیب قدرت ہے
وہ بولتا ہے تو اک روشنی سی ہوتی ہے
لہجہ کہ جیسے صبح کی خوشبو اذان دے
جی چاہتا ہے میں تری آواز چوم لوں
بولتے رہنا کیونکہ تمہاری باتوں سے
لفظوں کا یہ بہتا دریا اچھا لگتا ہے
چھپ گئے وہ ساز ہستی چھیڑ کر
اب تو بس آواز ہی آواز ہے
موت خاموشی ہے چپ رہنے سے چپ لگ جائے گی
زندگی آواز ہے باتیں کرو باتیں کرو
-
موضوعات : زندگیاور 1 مزید
گم رہا ہوں ترے خیالوں میں
تجھ کو آواز عمر بھر دی ہے
-
موضوع : یاد
تفریق حسن و عشق کے انداز میں نہ ہو
لفظوں میں فرق ہو مگر آواز میں نہ ہو
دھیمے سروں میں کوئی مدھر گیت چھیڑئیے
ٹھہری ہوئی ہواؤں میں جادو بکھیریے
پھول کی خوشبو ہوا کی چاپ شیشہ کی کھنک
کون سی شے ہے جو تیری خوش بیانی میں نہیں
اس غیرت ناہید کی ہر تان ہے دیپک
شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو
-
موضوع : خوش بیانی
کوئی آیا تری جھلک دیکھی
کوئی بولا سنی تری آواز
-
موضوعات : عشقاور 1 مزید
لے میں ڈوبی ہوئی مستی بھری آواز کے ساتھ
چھیڑ دے کوئی غزل اک نئے انداز کے ساتھ
تری آواز کو اس شہر کی لہریں ترستی ہیں
غلط نمبر ملاتا ہوں تو پہروں بات ہوتی ہے
چراغ جلتے ہیں باد صبا مہکتی ہے
تمہارے حسن تکلم سے کیا نہیں ہوتا
میں جو بولا کہا کہ یہ آواز
اسی خانہ خراب کی سی ہے
میری یہ آرزو ہے وقت مرگ
اس کی آواز کان میں آوے
-
موضوعات : آرزواور 1 مزید
اس کی آواز میں تھے سارے خد و خال اس کے
وہ چہکتا تھا تو ہنستے تھے پر و بال اس کے
-
موضوع : خوش بیانی
درد دل پہلے تو وہ سنتے نہ تھے
اب یہ کہتے ہیں ذرا آواز سے
-
موضوعات : درداور 1 مزید
یہ بھی اعجاز مجھے عشق نے بخشا تھا کبھی
اس کی آواز سے میں دیپ جلا سکتا تھا
مجھ سے جو چاہئے وہ درس بصیرت لیجے
میں خود آواز ہوں میری کوئی آواز نہیں
ہاتھ جس کو لگا نہیں سکتا
اس کو آواز تو لگانے دو
کھنک جاتے ہیں جب ساغر تو پہروں کان بجتے ہیں
ارے توبہ بڑی توبہ شکن آواز ہوتی ہے
رات اک اجڑے مکاں پر جا کے جب آواز دی
گونج اٹھے بام و در میری صدا کے سامنے
میں اس کو کھو کے بھی اس کو پکارتی ہی رہی
کہ سارا ربط تو آواز کے سفر کا تھا
خاموشی کے ناخن سے چھل جایا کرتے ہیں
کوئی پھر ان زخموں پر آوازیں ملتا ہے
-
موضوعات : خاموشیاور 1 مزید
ایک آواز نے توڑی ہے خموشی میری
ڈھونڈھتا ہوں تو پس ساحل شب کچھ بھی نہیں
عمر بھر کو مجھے بے صدا کر گیا
تیرا اک بار منہ پھیر کر بولنا