احمد مشتاق
غزل 80
اشعار 72
پتا اب تک نہیں بدلا ہمارا
وہی گھر ہے وہی قصہ ہمارا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
تنہائی میں کرنی تو ہے اک بات کسی سے
لیکن وہ کسی وقت اکیلا نہیں ہوتا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
ایک لمحے میں بکھر جاتا ہے تانا بانا
اور پھر عمر گزر جاتی ہے یکجائی میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
تو اگر پاس نہیں ہے کہیں موجود تو ہے
تیرے ہونے سے بڑے کام ہمارے نکلے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
اہل ہوس تو خیر ہوس میں ہوئے ذلیل
وہ بھی ہوئے خراب، محبت جنہوں نے کی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
مضمون 1
کتاب 12
تصویری شاعری 26
مل ہی آتے ہیں اسے ایسا بھی کیا ہو جائے_گا بس یہی نا درد کچھ دل کا سوا ہو جائے_گا وہ مرے دل کی پریشانی سے افسردہ ہو کیوں دل کا کیا ہے کل کو پھر اچھا بھلا ہو جائے_گا گھر سے کچھ خوابوں سے ملنے کے لیے نکلے تھے ہم کیا خبر تھی زندگی سے سامنا ہو جائے_گا رونے لگتا ہوں محبت میں تو کہتا ہے کوئی کیا ترے اشکوں سے یہ جنگل ہرا ہو جائے_گا کیسے آ سکتی ہے ایسی دل_نشیں دنیا کو موت کون کہتا ہے کہ یہ سب کچھ فنا ہو جائے_گا
تھم گیا درد اجالا ہوا تنہائی میں برق چمکی ہے کہیں رات کی گہرائی میں باغ کا باغ لہو رنگ ہوا جاتا ہے وقت مصروف ہے کیسی چمن_آرائی میں شہر ویران ہوئے بحر بیابان ہوئے خاک اڑتی ہے در و دشت کی پہنائی میں ایک لمحے میں بکھر جاتا ہے تانا_بانا اور پھر عمر گزر جاتی ہے یکجائی میں اس تماشے میں نہیں دیکھنے والا کوئی اس تماشے کو جو برپا ہے تماشائی میں