عدو پر اشعار
جس زخم کی ہو سکتی ہو تدبیر رفو کی
لکھ دیجیو یا رب اسے قسمت میں عدو کی
عدو کو چھوڑ دو پھر جان بھی مانگو تو حاضر ہے
تم ایسا کر نہیں سکتے تو ایسا ہو نہیں سکتا
گو آپ نے جواب برا ہی دیا ولے
مجھ سے بیاں نہ کیجے عدو کے پیام کو
یہی ہے آزمانا تو ستانا کس کو کہتے ہیں
عدو کے ہو لیے جب تم تو میرا امتحاں کیوں ہو
میں جس کو اپنی گواہی میں لے کے آیا ہوں
عجب نہیں کہ وہی آدمی عدو کا بھی ہو
یاں تک عدو کا پاس ہے ان کو کہ بزم میں
وہ بیٹھتے بھی ہیں تو مرے ہم نشیں سے دور
سہل ہو گرچہ عدو کو مگر اس کا ملنا
اتنا میں خوب سمجھتا ہوں کہ آساں تو نہیں