Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

واٹس ایپ پر اشعار

جو گزاری نہ جا سکی ہم سے

ہم نے وہ زندگی گزاری ہے

جون ایلیا

رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ

آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ

احمد فراز

آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے

ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے

منیر نیازی

کسی کو گھر سے نکلتے ہی مل گئی منزل

کوئی ہماری طرح عمر بھر سفر میں رہا

احمد فراز

دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا

تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روزگار کے

فیض احمد فیض

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا

اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا

مرزا غالب

تم سلامت رہو ہزار برس

ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار

مرزا غالب

محبت اب نہیں ہوگی یہ کچھ دن بعد میں ہوگی

گزر جائیں گے جب یہ دن یہ ان کی یاد میں ہوگی

منیر نیازی

علاج اپنا کراتے پھر رہے ہو جانے کس کس سے

محبت کر کے دیکھو نا محبت کیوں نہیں کرتے

فرحت احساس

مجھ سے بچھڑ کے تو بھی تو روئے گا عمر بھر

یہ سوچ لے کہ میں بھی تری خواہشوں میں ہوں

احمد فراز

ٹھیک ہے خود کو ہم بدلتے ہیں

شکریہ مشورت کا چلتے ہیں

جون ایلیا

سنا ہے اس کے شبستاں سے متصل ہے بہشت

مکیں ادھر کے بھی جلوے ادھر کے دیکھتے ہیں

احمد فراز

میں اب ہر شخص سے اکتا چکا ہوں

فقط کچھ دوست ہیں اور دوست بھی کیا

جون ایلیا

مجھ کو اکثر اداس کرتی ہے

ایک تصویر مسکراتی ہوئی

وکاس شرما راز

اک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر

کاش اس زباں دراز کا منہ نوچ لے کوئی

جون ایلیا

ہم ہیں اسیر ضبط اجازت نہیں ہمیں

رو پا رہے ہیں آپ بدھائی ہے روئیے

عباس قمر

جیسی اب ہے ایسی حالت میں نہیں رہ سکتا

میں ہمیشہ تو محبت میں نہیں رہ سکتا

ظفر اقبال

تم آئے ہو نہ شب انتظار گزری ہے

تلاش میں ہے سحر بار بار گزری ہے

تشریح

اس شعر کو اکثر شارحین اور ناقدین نے ترقی پسند فکر کے آئینے میں دیکھا ہے۔ ان کی نظر میں ’’تم‘‘ انقلاب ، شبِ انتظار کشمکش اور استحصال اور تلاش جستجو کی علامت ہے۔ اس اعتبار سے شعر کا مضمون یہ بنتا ہے کہ انقلاب کے کوشاں لوگوں نے استحصالی عناصر کے خلاف ہر چند کی بہت سعی کی مگر ہر دور اپنے ساتھ نئے استحصالی عناصر کو لاتا ہے۔ مگر چونکہ فیض نے اپنی شاعری میں اردو شاعری کی رویت سے بغاوت نہیں کی اور روایتی تلازمات کو ہی برتا ہے اس لئے اس شعر کو اگر ترقی پسند سوچ کے دائرے سے نکال کر بھی دیکھاجائے تو اس میں ایک عاشق اپنے محبوب سے کہتا ہے کہ نہ تم آئے اور نہ انتظار کی رات گزری۔ اگرچہ دستور یہ ہے کہ ہر رات کی صبح ہوتی ہے مگر صبح کے بار بار آنے کے باوجود انتظار کی رات ختم نہیں ہوئی۔

شفق سوپوری

فیض احمد فیض

غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا

دل کے جانے کا نہایت غم رہا

میر تقی میر

لایا ہے مرا شوق مجھے پردے سے باہر

میں ورنہ وہی خلوتیٔ راز نہاں ہوں

میر تقی میر

جو طلب پہ عہد وفا کیا تو وہ آبروئے وفا گئی

سر عام جب ہوئے مدعی تو ثواب صدق و وفا گیا

فیض احمد فیض

وہ اب بھی دل دکھا دیتا ہے میرا

وہ میرا دوست ہے دشمن نہیں ہے

ابھیشیک کمار امبر

ہم ترا ہجر منانے کے لیے نکلے ہیں

شہر میں آگ لگانے کے لیے نکلے ہیں

جون ایلیا

عاشقی میں میرؔ جیسے خواب مت دیکھا کرو

باؤلے ہو جاؤ گے مہتاب مت دیکھا کرو

احمد فراز

بس محبت بس محبت بس محبت جان من

باقی سب جذبات کا اظہار کم کر دیجیے

فرحت احساس

رکھی ہوئی ہے دونوں کی بنیاد ریت پر

صحرائے بے کراں کو سمندر لکھیں گے ہم

امیر امام

حالت حال سے بیگانہ بنا رکھا ہے

خود کو ماضی کا نہاں خانہ بنا رکھا ہے

عباس قمر

جانے کیا کچھ ہو چھپا تم میں محبت کے سوا

ہم تسلی کے لئے پھر سے کھگالیں گے تمہیں

ابھیشیک شکلا

میری کوشش تو یہی ہے کہ یہ معصوم رہے

اور دل ہے کہ سمجھ دار ہوا جاتا ہے

وکاس شرما راز

پہلے صحرا سے مجھے لایا سمندر کی طرف

ناؤ پر کاغذ کی پھر مجھ کو سوار اس نے کیا

امیر امام

چلو اتنی تو آسانی رہے گی

ملیں گے اور پریشانی رہے گی

ظفر اقبال
بولیے