Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

خط پر اشعار

شاعری میں خط کا مضمون

عاشق ، معشوق اور نامہ بر کے درمیان کی ایک دلچسپ کہانی ہے ۔ اس کہانی کو شاعروں کے تخیل نے اور زیادہ رنگارنگ بنا دیا ہے ۔ اگر آپ نے خط کو موضوع بنانے والی شاعری نہیں پڑھی تو گویا آپ کلاسیکی شاعری کے ایک بہت دلچسپ حصے سے ناآشنا ہیں ۔ ہم ایک چھوٹا سا انتخاب یہاں پیش کر رہے ہیں اسے پڑھئے اور عام کیجئے ۔

اپنا خط آپ دیا ان کو مگر یہ کہہ کر

خط تو پہچانئے یہ خط مجھے گمنام ملا

کیفی حیدرآبادی

یا اس سے جواب خط لانا یا قاصد اتنا کہہ دینا

بچنے کا نہیں بیمار ترا ارشاد اگر کچھ بھی نہ ہوا

حقیر

غصے میں برہمی میں غضب میں عتاب میں

خود آ گئے ہیں وہ مرے خط کے جواب میں

دواکر راہی

جب اس نے مرا خط نہ چھوا ہاتھ سے اپنے

قاصد نے بھی چپکا دیا دیوار سے کاغذ

پیر شیر محمد عاجز

پھاڑ کر خط اس نے قاصد سے کہا

کوئی پیغام زبانی اور ہے

سردار گینڈا سنگھ مشرقی

ایک مدت سے نہ قاصد ہے نہ خط ہے نہ پیام

اپنے وعدے کو تو کر یاد مجھے یاد نہ کر

جلالؔ مانکپوری

پہلی بار وہ خط لکھا تھا

جس کا جواب بھی آ سکتا تھا

شارق کیفی

آپ کا خط نہیں ملا مجھ کو

دولت دو جہاں ملی مجھ کو

اثر لکھنوی

کیا کیا فریب دل کو دئیے اضطراب میں

ان کی طرف سے آپ لکھے خط جواب میں

داغؔ دہلوی

ہم پہ جو گزری بتایا نہ بتائیں گے کبھی

کتنے خط اب بھی ترے نام لکھے رکھے ہیں

نامعلوم

آیا نہ پھر کے ایک بھی کوچے سے یار کے

قاصد گیا نسیم گئی نامہ بر گیا

جلیل مانک پوری

کوئی پرانا خط کچھ بھولی بسری یاد

زخموں پر وہ لمحے مرہم ہوتے ہیں

انجم عرفانی

آج کا خط ہی اسے بھیجا ہے کورا لیکن

آج کا خط ہی ادھورا نہیں لکھا میں نے

حامد مختار حامد

روح گھبرائی ہوئی پھرتی ہے میری لاش پر

کیا جنازے پر میرے خط کا جواب آنے کو ہے

فانی بدایونی

نامہ بر تو ہی بتا تو نے تو دیکھے ہوں گے

کیسے ہوتے ہیں وہ خط جن کے جواب آتے ہیں

قمر بدایونی

مضمون سوجھتے ہیں ہزاروں نئے نئے

قاصد یہ خط نہیں مرے غم کی کتاب ہے

نظام رامپوری

اشکوں کے نشاں پرچۂ سادہ پہ ہیں قاصد

اب کچھ نہ بیاں کر یہ عبارت ہی بہت ہے

احسن علی خاں

کیا بھول گئے ہیں وہ مجھے پوچھنا قاصد

نامہ کوئی مدت سے مرے کام نہ آیا

فنا بلند شہری

کافی ہے مرے دل کی تسلی کو یہی بات

آپ آ نہ سکے آپ کا پیغام تو آیا

شکیل بدایونی

چند تصویر بتاں چند حسینوں کے خطوط

بعد مرنے کے مرے گھر سے یہ ساماں نکلا

بزم اکبرآبادی

خط کا یہ جواب آیا کہ قاصد گیا جی سے

سر ایک طرف لوٹے ہے اور ایک طرف دھڑ

ولی اللہ محب

قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں

میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں

مرزا غالب

ہو چکا عیش کا جلسہ تو مجھے خط بھیجا

آپ کی طرح سے مہمان بلائے کوئی

داغؔ دہلوی

پتا ملتا نہیں اس بے نشاں کا

لیے پھرتا ہے قاصد جا بجا خط

بہرام جی

خط شوق کو پڑھ کے قاصد سے بولے

یہ ہے کون دیوانہ خط لکھنے والا

سائل دہلوی

تمہارے خط میں نظر آئی اتنی خاموشی

کہ مجھ کو رکھنے پڑے اپنے کان کاغذ پر

یاسر خان انعام

زباں قاصد کی مضطرؔ کاٹ لی جب ان کو خط بھیجا

کہ آخر آدمی ہے تذکرہ شاید کہیں کر دے

مضطر خیرآبادی

وہ تڑپ جائے اشارہ کوئی ایسا دینا

اس کو خط لکھنا تو میرا بھی حوالہ دینا

اظہر عنایتی

توقع ہے دھوکے میں آ کر وہ پڑھ لیں

کہ لکھا ہے ناما انہیں خط بدل کر

امیر مینائی

مٹ چلے میری امیدوں کی طرح حرف مگر

آج تک تیرے خطوں سے تری خوشبو نہ گئی

اختر شیرانی

میرا ہی خط اس شوخ نے بھیجا مرے آگے

آخر جو لکھا تھا وہی آیا مرے آگے

لالہ مادھو رام جوہر

ترا خط آنے سے دل کو میرے آرام کیا ہوگا

خدا جانے کہ اس آغاز کا انجام کیا ہوگا

محمد رفیع سودا

کبھی یہ فکر کہ وہ یاد کیوں کریں گے ہمیں

کبھی خیال کہ خط کا جواب آئے گا

ہجر ناظم علی خان

خط کے پرزے آئے ہیں قاصد کا سر تصویر غیر

یہ ہے بھیجا اس ستم گر نے مرے خط کا جواب

نامعلوم

اس نے یہ کہہ کر پھیر دیا خط

خون سے کیوں تحریر نہیں ہے

کیف بھوپالی

تمہیں یہ غم ہے کہ اب چٹھیاں نہیں آتیں

ہماری سوچو ہمیں ہچکیاں نہیں آتیں

چراغ شرما

ناامیدی موت سے کہتی ہے اپنا کام کر

آس کہتی ہے ٹھہر خط کا جواب آنے کو ہے

فانی بدایونی

لے کے خط ان کا کیا ضبط بہت کچھ لیکن

تھرتھراتے ہوئے ہاتھوں نے بھرم کھول دیا

جگر مراد آبادی

خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو

ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے

مرزا غالب

کسی نا خواندہ بوڑھے کی طرح خط اس کا پڑھتا ہوں

کہ سو سو بار اک اک لفظ سے انگلی گزرتی ہے

اطہر نفیس

واں سے آیا ہے جواب خط کوئی سنیو تو ذرا

میں نہیں ہوں آپ میں مجھ سے نہ سمجھا جائے گا

جرأت قلندر بخش

مرا خط اس نے پڑھا پڑھ کے نامہ بر سے کہا

یہی جواب ہے اس کا کوئی جواب نہیں

امیر مینائی

اندھیرا ہے کیسے ترا خط پڑھوں

لفافے میں کچھ روشنی بھیج دے

محمد علوی

کیا جانے کیا لکھا تھا اسے اضطراب میں

قاصد کی لاش آئی ہے خط کے جواب میں

مومن خاں مومن

خط دیکھ کر مرا مرے قاصد سے یوں کہا

کیا گل نہیں ہوا وہ چراغ سحر ہنوز

ماتم فضل محمد

چوں شمع سوزاں چوں ذرہ حیراں ز مہر آں مہ بگشتم آخر

نہ نیند نیناں نہ انگ چیناں نہ آپ آوے نہ بھیجے پتیاں

امیر خسرو

کیسے مانیں کہ انہیں بھول گیا تو اے کیفؔ

ان کے خط آج ہمیں تیرے سرہانے سے ملے

کیف بھوپالی

کھلے گا کس طرح مضموں مرے مکتوب کا یا رب

قسم کھائی ہے اس کافر نے کاغذ کے جلانے کی

مرزا غالب

خط لکھا یار نے رقیبوں کو

زندگی نے دیا جواب مجھے

لالہ مادھو رام جوہر

کسی کو بھیج کے خط ہائے یہ کیسا عذاب آیا

کہ ہر اک پوچھتا ہے نامہ بر آیا جواب آیا

احسن مارہروی

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے