راستہ پر اشعار

راستہ ، سفر، منزل ،

مسافر اور اس قسم کی دوسری لفظیات جو سفر ہی کے علاقے کی ہیں شاعری میں کثرت سے برتی گئی ہیں ۔ یہاں ہم کچھ ایسے اشعار پیش کر رہے ہیں جن میں راستہ اپنی تمام تر رسومیات کے ساتھ در آیا ہے ۔ یہ راستہ کبھی ملتا بھی ہے اور منزل تک پہنچاتا بھی ہے اور کبھی گم ہوجاتا ہے ۔ راستے کی پیچیدگی اور اس کی کثرت منزل کو بے نشان کردیتی ہے ۔ آپ ہمارے اس انتخاب کو پڑھئے اور زندگی کے زندہ تجربات میں شرکت کیجئے ۔

کیوں چلتے چلتے رک گئے ویران راستو

تنہا ہوں آج میں ذرا گھر تک تو ساتھ دو

عادل منصوری

یہاں کسی کو کوئی راستہ نہیں دیتا

مجھے گرا کے اگر تم سنبھل سکو تو چلو

ندا فاضلی

فیضؔ تھی راہ سر بسر منزل

ہم جہاں پہنچے کامیاب آئے

فیض احمد فیض

وہ کیا منزل جہاں سے راستے آگے نکل جائیں

سو اب پھر اک سفر کا سلسلہ کرنا پڑے گا

افتخار عارف

سفر کا ایک نیا سلسلہ بنانا ہے

اب آسمان تلک راستہ بنانا ہے

شہباز خواجہ

یوں تیری رہ گزر سے دیوانہ وار گزرے

کاندھے پہ اپنے رکھ کے اپنا مزار گزرے

مینا کماری ناز

ہم آپ کو دیکھتے تھے پہلے

اب آپ کی راہ دیکھتے ہیں

کیفی حیدرآبادی

کٹی ہوئی ہے زمیں کوہ سے سمندر تک

ملا ہے گھاؤ یہ دریا کو راستہ دے کر

عدیم ہاشمی

تو کبھی اس شہر سے ہو کر گزر

راستوں کے جال میں الجھا ہوں میں

آشفتہ چنگیزی

کاش وہ راستے میں مل جائے

مجھ کو منہ پھیر کر گزرنا ہے

فہمی بدایونی

کوئی رستہ کہیں جائے تو جانیں

بدلنے کے لیے رستے بہت ہیں

محبوب خزاں

جو رکاوٹ تھی ہماری راہ کی

راستہ نکلا اسی دیوار سے

اظہر عباس

یقیناً رہبر منزل کہیں پر راستا بھولا

وگرنہ قافلے کے قافلے گم ہو نہیں سکتے

نثار اٹاوی

میں خود ہی اپنے تعاقب میں پھر رہا ہوں ابھی

اٹھا کے تو میری راہوں سے راستا لے جا

لطف الرحمن

دلچسپ ہو گئی ترے چلنے سے رہ گزر

اٹھ اٹھ کے گرد راہ لپٹتی ہے راہ سے

جلیل مانک پوری

جہاں تک پاؤں میرے جا سکے ہیں

وہیں تک راستہ ٹھہرا ہوا ہے

عبدالصمد تپشؔ

عجب نہیں کہ یہ دریا نظر کا دھوکا ہو

عجب نہیں کہ کوئی راستہ نکل آئے

عرفان صدیقی

پھر اسی قبر کے برابر سے

زندہ رہنے کا راستہ نکلا

فہمی بدایونی

مسافر ترا ذکر کرتے رہے

مہکتا رہا راستہ دیر تک

عقیل نعمانی

Jashn-e-Rekhta | 2-3-4 December 2022 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate, New Delhi

GET YOUR FREE PASS
بولیے