مفلسی پر اشعار
مفلسی سے شاید آپ نہ
گزرے ہوں لیکن انسانی سماج کا حصہ ہونے کی وجہ سے اس کا احساس تو کرسکتے ہیں ۔ اگر کر سکتے ہیں تو اندازہ ہوگا کہ مفلسی کس قدر جاں سوز ہوتی ہے اور ساتھ ہی ایک مفلس آدمی کے تئیں سماج کا رویہ کیا ہوتا ہے وہ کس طرح سماجی علیحیدگی کا دکھ جھیلتا ہے ۔ ہمارا یہ شعری انتخاب مفلس اور مفلسی کے مسائل پر ایک تخلیقی مکالمہ ہے آپ اسے پڑھئے اور زندگی کا نیا شعور حاصل کیجئے ۔
فرشتے آ کر ان کے جسم پر خوشبو لگاتے ہیں
وہ بچے ریل کے ڈبوں میں جو جھاڑو لگاتے ہیں
-
موضوعات : بچپن شاعریاور 1 مزید
چمن میں خشک سالی پر ہے خوش صیاد کہ اب خود
پرندے پیٹ کی خاطر اسیر دام ہوتے ہیں
-
موضوع : صیاد
غربت کی تیز آگ پہ اکثر پکائی بھوک
خوش حالیوں کے شہر میں کیا کچھ نہیں کیا
کھلونوں کی دکانو راستا دو
مرے بچے گزرنا چاہتے ہیں
-
موضوع : بچپن شاعری
غم کی دنیا رہے آباد شکیلؔ
مفلسی میں کوئی جاگیر تو ہے
-
موضوع : غم
بیچ سڑک اک لاش پڑی تھی اور یہ لکھا تھا
بھوک میں زہریلی روٹی بھی میٹھی لگتی ہے
بھوک چہروں پہ لیے چاند سے پیارے بچے
بیچتے پھرتے ہیں گلیوں میں غبارے بچے
-
موضوع : بچپن شاعری
جو میرے گاؤں کے کھیتوں میں بھوک اگنے لگی
مرے کسانوں نے شہروں میں نوکری کر لی
-
موضوعات : شہراور 1 مزید
اس کے ہاتھ میں غبارے تھے پھر بھی بچا گم صم تھا
وہ غبارے بیچ رہا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے
دیو پری کے قصے سن کر
بھوکے بچے سو لیتے ہیں
کھلونوں کے لئے بچے ابھی تک جاگتے ہوں گے
تجھے اے مفلسی کوئی بہانہ ڈھونڈ لینا ہے
شرم آتی ہے کہ اس شہر میں ہم ہیں کہ جہاں
نہ ملے بھیک تو لاکھوں کا گزارا ہی نہ ہو
کھڑا ہوں آج بھی روٹی کے چار حرف لیے
سوال یہ ہے کتابوں نے کیا دیا مجھ کو
-
موضوعات : سوالاور 1 مزید
مفلسی سب بہار کھوتی ہے
مرد کا اعتبار کھوتی ہے
-
موضوع : مشہور اشعار
مفلسی بھوک کو شہوت سے ملا دیتی ہے
گندمی لمس میں ہے ذائقۂ نان جویں
وہ اکثر دن میں بچوں کو سلا دیتی ہے اس ڈر سے
گلی میں پھر کھلونے بیچنے والا نہ آ جائے
میں ظفرؔ تا زندگی بکتا رہا پردیس میں
اپنی گھر والی کو اک کنگن دلانے کے لیے
مفلسی سیں اب زمانے کا رہا کچھ حال نئیں
آسماں چرخی کے جوں پھرتا ہے لیکن مال نئیں
دنیا میں غریبوں کو دو کام ہی آتے ہیں
کھانے کے لیے جینا جینے کے لیے کھانا
آیا ہے اک راہ نما کے استقبال کو اک بچہ
پیٹ ہے خالی آنکھ میں حسرت ہاتھوں میں گلدستہ ہے
دوشالہ شال کشمیری امیروں کو مبارک ہو
گلیم کہنہ میں جاڑا فقیروں کا بسر ہوگا
گھر لوٹ کے روئیں گے ماں باپ اکیلے میں
مٹی کے کھلونے بھی سستے نہ تھے میلے میں
-
موضوع : ماں
جب چلی ٹھنڈی ہوا بچہ ٹھٹھر کر رہ گیا
ماں نے اپنے لعل کی تختی جلا دی رات کو
-
موضوعات : سردیاور 1 مزید
اب زمینوں کو بچھائے کہ فلک کو اوڑھے
مفلسی تو بھری برسات میں بے گھر ہوئی ہے
اپنے بچوں کو میں باتوں میں لگا لیتا ہوں
جب بھی آواز لگاتا ہے کھلونے والا
-
موضوع : بچپن شاعری
آج پھر ماں مجھے مارے گی بہت رونے پر
آج پھر گاؤں میں آیا ہے کھلونے والا
غریبوں پر تو موسم بھی حکومت کرتے رہتے ہیں
کبھی بارش کبھی گرمی کبھی ٹھنڈک کا قبضہ ہے
جرأت شوق تو کیا کچھ نہیں کہتی لیکن
پاؤں پھیلانے نہیں دیتی ہے چادر مجھ کو
مفلسی میں مزاج شاہانہ
کس مرض کی دوا کرے کوئی
مفلسوں کی زندگی کا ذکر کیا
مفلسی کی موت بھی اچھی نہیں
عید کا دن ہے سو کمرے میں پڑا ہوں اسلمؔ
اپنے دروازے کو باہر سے مقفل کر کے
-
موضوعات : تنہائیاور 1 مزید
بھٹکتی ہے ہوس دن رات سونے کی دکانوں میں
غریبی کان چھدواتی ہے تنکا ڈال دیتی ہے
ہٹو کاندھے سے آنسو پونچھ ڈالو وہ دیکھو ریل گاڑی آ رہی ہے
میں تم کو چھوڑ کر ہرگز نہ جاتا غریبی مجھ کو لے کر جا رہی ہے
اپنی غربت کی کہانی ہم سنائیں کس طرح
رات پھر بچہ ہمارا روتے روتے سو گیا
ہم حسین غزلوں سے پیٹ بھر نہیں سکتے
دولت سخن لے کر بے فراغ ہیں یارو
بھوکے بچوں کی تسلی کے لیے
ماں نے پھر پانی پکایا دیر تک
-
موضوع : ماں
جب آیا عید کا دن گھر میں بے بسی کی طرح
تو میرے پھول سے بچوں نے مجھ کو گھیر لیا
-
موضوع : عید
سیہ بختی میں کب کوئی کسی کا ساتھ دیتا ہے
کہ تاریکی میں سایہ بھی جدا رہتا ہے انساں سے
-
موضوعات : فلمی اشعاراور 1 مزید
بے زری فاقہ کشی مفلسی بے سامانی
ہم فقیروں کے بھی ہاں کچھ نہیں اور سب کچھ ہے