Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مفلسی پر اشعار

مفلسی سے شاید آپ نہ

گزرے ہوں لیکن انسانی سماج کا حصہ ہونے کی وجہ سے اس کا احساس تو کرسکتے ہیں ۔ اگر کر سکتے ہیں تو اندازہ ہوگا کہ مفلسی کس قدر جاں سوز ہوتی ہے اور ساتھ ہی ایک مفلس آدمی کے تئیں سماج کا رویہ کیا ہوتا ہے وہ کس طرح سماجی علیحیدگی کا دکھ جھیلتا ہے ۔ ہمارا یہ شعری انتخاب مفلس اور مفلسی کے مسائل پر ایک تخلیقی مکالمہ ہے آپ اسے پڑھئے اور زندگی کا نیا شعور حاصل کیجئے ۔

گھر لوٹ کے روئیں گے ماں باپ اکیلے میں

مٹی کے کھلونے بھی سستے نہ تھے میلے میں

قیصر الجعفری

کھڑا ہوں آج بھی روٹی کے چار حرف لیے

سوال یہ ہے کتابوں نے کیا دیا مجھ کو

نظیر باقری

سیہ بختی میں کب کوئی کسی کا ساتھ دیتا ہے

کہ تاریکی میں سایہ بھی جدا رہتا ہے انساں سے

امام بخش ناسخ

غریب شہر تو فاقے سے مر گیا عارفؔ

امیر شہر نے ہیرے سے خودکشی کر لی

عارف شفیق

فرشتے آ کر ان کے جسم پر خوشبو لگاتے ہیں

وہ بچے ریل کے ڈبوں میں جو جھاڑو لگاتے ہیں

منور رانا

وہ اکثر دن میں بچوں کو سلا دیتی ہے اس ڈر سے

گلی میں پھر کھلونے بیچنے والا نہ آ جائے

محسن نقوی

بھوک چہروں پہ لیے چاند سے پیارے بچے

بیچتے پھرتے ہیں گلیوں میں غبارے بچے

بیدل حیدری

عید کا دن ہے سو کمرے میں پڑا ہوں اسلمؔ

اپنے دروازے کو باہر سے مقفل کر کے

اسلم کولسری

آج پھر ماں مجھے مارے گی بہت رونے پر

آج پھر گاؤں میں آیا ہے کھلونے والا

نواز ظفر

جب چلی ٹھنڈی ہوا بچہ ٹھٹھر کر رہ گیا

ماں نے اپنے لعل کی تختی جلا دی رات کو

سبط علی صبا

بچوں کی فیس ان کی کتابیں قلم دوات

میری غریب آنکھوں میں اسکول چبھ گیا

منور رانا

جو میرے گاؤں کے کھیتوں میں بھوک اگنے لگی

مرے کسانوں نے شہروں میں نوکری کر لی

عارف شفیق

مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتی ہے

بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی

نامعلوم

شرم آتی ہے کہ اس شہر میں ہم ہیں کہ جہاں

نہ ملے بھیک تو لاکھوں کا گزارا ہی نہ ہو

جاں نثار اختر

اس کے ہاتھ میں غبارے تھے پھر بھی بچا گم صم تھا

وہ غبارے بیچ رہا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے

سید سروش آصف

بھٹکتی ہے ہوس دن رات سونے کی دکانوں میں

غریبی کان چھدواتی ہے تنکا ڈال دیتی ہے

منور رانا

بیچ سڑک اک لاش پڑی تھی اور یہ لکھا تھا

بھوک میں زہریلی روٹی بھی میٹھی لگتی ہے

بیکل اتساہی

بھوکے بچوں کی تسلی کے لیے

ماں نے پھر پانی پکایا دیر تک

نواز دیوبندی

مفلسی سب بہار کھوتی ہے

مرد کا اعتبار کھوتی ہے

ولی دکنی

غم کی دنیا رہے آباد شکیلؔ

مفلسی میں کوئی جاگیر تو ہے

شکیل بدایونی

کھلونوں کی دکانو راستا دو

مرے بچے گزرنا چاہتے ہیں

نامعلوم

ہٹو کاندھے سے آنسو پونچھ ڈالو وہ دیکھو ریل گاڑی آ رہی ہے

میں تم کو چھوڑ کر ہرگز نہ جاتا غریبی مجھ کو لے کر جا رہی ہے

نامعلوم

غربت کی تیز آگ پہ اکثر پکائی بھوک

خوش حالیوں کے شہر میں کیا کچھ نہیں کیا

اقبال ساجد

اپنے بچوں کو میں باتوں میں لگا لیتا ہوں

جب بھی آواز لگاتا ہے کھلونے والا

راشد راہی

کھلونوں کے لئے بچے ابھی تک جاگتے ہوں گے

تجھے اے مفلسی کوئی بہانہ ڈھونڈ لینا ہے

منور رانا

آیا ہے اک راہ نما کے استقبال کو اک بچہ

پیٹ ہے خالی آنکھ میں حسرت ہاتھوں میں گلدستہ ہے

غلام محمد قاصر

مفلسوں کی زندگی کا ذکر کیا

مفلسی کی موت بھی اچھی نہیں

ریاضؔ خیرآبادی

میں اوجھل ہو گئی ماں کی نظر سے

گلی میں جب کوئی بارات آئی

نامعلوم

جرأت شوق تو کیا کچھ نہیں کہتی لیکن

پاؤں پھیلانے نہیں دیتی ہے چادر مجھ کو

بسمل عظیم آبادی

میں ظفرؔ تا زندگی بکتا رہا پردیس میں

اپنی گھر والی کو اک کنگن دلانے کے لیے

ظفر گورکھپوری

بے زری فاقہ کشی مفلسی بے سامانی

ہم فقیروں کے بھی ہاں کچھ نہیں اور سب کچھ ہے

نظیر اکبرآبادی

مفلسی بھوک کو شہوت سے ملا دیتی ہے

گندمی لمس میں ہے ذائقۂ نان جویں

عبد الاحد ساز

اپنی غربت کی کہانی ہم سنائیں کس طرح

رات پھر بچہ ہمارا روتے روتے سو گیا

عبرت مچھلی شہری

غریبوں پر تو موسم بھی حکومت کرتے رہتے ہیں

کبھی بارش کبھی گرمی کبھی ٹھنڈک کا قبضہ ہے

منور رانا

دنیا میں غریبوں کو دو کام ہی آتے ہیں

کھانے کے لیے جینا جینے کے لیے کھانا

کلیم عاجز

اب زمینوں کو بچھائے کہ فلک کو اوڑھے

مفلسی تو بھری برسات میں بے گھر ہوئی ہے

سلیم صدیقی

جب آیا عید کا دن گھر میں بے بسی کی طرح

تو میرے پھول سے بچوں نے مجھ کو گھیر لیا

بسمل صابری

مفلسی سیں اب زمانے کا رہا کچھ حال نئیں

آسماں چرخی کے جوں پھرتا ہے لیکن مال نئیں

آبرو شاہ مبارک

مفلسی میں مزاج شاہانہ

کس مرض کی دوا کرے کوئی

یگانہ چنگیزی

دوشالہ شال کشمیری امیروں کو مبارک ہو

گلیم کہنہ میں جاڑا فقیروں کا بسر ہوگا

آغا اکبرآبادی

ہم حسین غزلوں سے پیٹ بھر نہیں سکتے

دولت سخن لے کر بے فراغ ہیں یارو

فضا ابن فیضی

دیو پری کے قصے سن کر

بھوکے بچے سو لیتے ہیں

عتیق الہ آبادی

چمن میں خشک سالی پر ہے خوش صیاد کہ اب خود

پرندے پیٹ کی خاطر اسیر دام ہوتے ہیں

صدا انبالوی
بولیے