نشہ پر اشعار
نشہ پر شاعری موضوعاتی
طور پر بہت متنوع ہے ۔ اس میں نشہ کی حالت کے تجربات اور کیفیتوں کا بیان بھی ہے اور نشہ کو لے کر زاہد وناصح سے روایتی چھیڑ چھاڑ بھی ۔ اس شاعری میں مے کشوں کے لئے بھی کئی دلچسپ پہلو ہیں ۔ ہمارے اس انتخاب کو پڑھئے اور لطف اٹھائیے ۔
چلے تو پاؤں کے نیچے کچل گئی کوئی شے
نشے کی جھونک میں دیکھا نہیں کہ دنیا ہے
اتنی پی جائے کہ مٹ جائے میں اور تو کی تمیز
یعنی یہ ہوش کی دیوار گرا دی جائے
نہ تم ہوش میں ہو نہ ہم ہوش میں ہیں
چلو مے کدہ میں وہیں بات ہوگی
ترک مے ہی سمجھ اسے ناصح
اتنی پی ہے کہ پی نہیں جاتی
ہم انتظار کریں ہم کو اتنی تاب نہیں
پلا دو تم ہمیں پانی اگر شراب نہیں
لوگ کہتے ہیں رات بیت چکی
مجھ کو سمجھاؤ! میں شرابی ہوں
-
موضوع : رات
خشک باتوں میں کہاں ہے شیخ کیف زندگی
وہ تو پی کر ہی ملے گا جو مزا پینے میں ہے
اے گردشو تمہیں ذرا تاخیر ہو گئی
اب میرا انتظار کرو میں نشے میں ہوں
-
موضوع : انتظار
عالم سے بے خبر بھی ہوں عالم میں بھی ہوں میں
ساقی نے اس مقام کو آساں بنا دیا
-
موضوع : بے خودی
مری شراب کی توبہ پہ جا نہ اے واعظ
نشے کی بات نہیں اعتبار کے قابل
یہ واقعہ مری آنکھوں کے سامنے کا ہے
شراب ناچ رہی تھی گلاس بیٹھے رہے
نشہ تھا زندگی کا شرابوں سے تیز تر
ہم گر پڑے تو موت اٹھا لے گئی ہمیں
-
موضوعات : زندگیاور 1 مزید
اتنی پی ہے کہ بعد توبہ بھی
بے پیے بے خودی سی رہتی ہے
-
موضوعات : بے خودیاور 2 مزید
ناصح خطا معاف سنیں کیا بہار میں
ہم اختیار میں ہیں نہ دل اختیار میں
آنکھوں کو دیکھتے ہی بولے
بن پئے کوئی مدہوش آیا
-
موضوع : آنکھ
اب میں حدود ہوش و خرد سے گزر گیا
ٹھکراؤ چاہے پیار کرو میں نشے میں ہوں
-
موضوع : بے خودی
مے خانۂ یورپ کے دستور نرالے ہیں
لاتے ہیں سرور اول دیتے ہیں شراب آخر
نشہ ٹوٹا نہیں ہے مار کھا کر
کہ ہم نے پی ہے کم کھائی بہت ہے
تا مرگ مجھ سے ترک نہ ہوگی کبھی نماز
پر نشۂ شراب نے مجبور کر دیا
یہ واعظ کیسی بہکی بہکی باتیں ہم سے کرتے ہیں
کہیں چڑھ کر شراب عشق کے نشے اترتے ہیں
مے کدے میں نشہ کی عینک دکھاتی ہے مجھے
آسماں مست و زمیں مست و در و دیوار مست
نشے میں سوجھتی ہے مجھے دور دور کی
ندی وہ سامنے ہے شراب طہور کی